امریکہ آج کل مرکز نگاہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ یہ گزشتہ چار ماہ میں دوسری اہم ملاقات تھی۔اس سے قبل دونوں رہنما جولائی میںملاقات کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں تسلیم کیا کہ ان سے پہلے کی امریکی قیادت نے پاکستان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔
عالمی میڈیا پر مبصرین میں یہ بحث جاری ہے کہ ملاقات مثبت تھی یا نہیں؟ پاک امریکہ تعلقات میں کیا تبدیلی رونما ہوئی؟ ایسے بہت سے سوالات ہر ذی شعور کے اذہان میں ہیں۔پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات سے قبل بھارت کے جلسے میں صدر ٹرمپ کی شرکت سے کئی سوالات اٹھنے لگے تھے۔ پاکستانی عوام میں غم و غصہ پایا جاتا تھا۔اس معاملے کو پاکستان سمیت انٹرنیشنل میڈیا نے بھی خوب اچھالا۔ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم کو اعتماد دلانے کی خاطر مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے پاکستان اورعمران خان پر اعتماد ہے۔ نیویارک میں میرے بہت سے پاکستانی دوست ہیں‘ جو سمارٹ ہیں۔ میں مدد کرنا چاہتا ہوں‘میرے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں‘ اگر دونوں فریقین چاہیں تو میں کشمیر کے معاملے میں مدد کرسکتا ہوں!۔
وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل ِ عام کا خدشے کا اظہار بھی کیا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ انڈین فوجی موجود ہیں‘ قتل ِعام ہو سکتا ہے‘ لہٰذا عالمی برادری اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ملاقات کے بعد ایک اور پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی حکومت کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں‘ وہ بھارت کے آئین سے متصادم ہیں۔کشمیرمیں کچھ بھی ہوتا ہے‘ تو بھارت اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے۔فروری میں ایک لڑکے نے بھارتی فوج پر حملہ کیا۔ پاکستان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا ‘لیکن بھارت نے پھر بھی اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا؛ حالانکہ ہم نے بھارت سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں80 لاکھ لوگ 50 دن سے لاک ڈاؤن میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا اس سے بڑی کوئی دہشت گردی ہے؟یقینا پاکستان کے وزیراعظم کو موقف واضح تھا ‘جن کو جواب نہ بھارت کے پاس ہے‘ نہ عالمی برادری پاکستان کو اس پر مطمئن کر سکتی ہے ۔وزیع اعظم عمران خان نے زور دیا کہ عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے‘ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے‘ کیونکہ کیوبا بحران کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ دو جوہری طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم کے ساتھ امریکی ریاست ٹیکساس میں جلسے میں شرکت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگایا تھاکہ اس نے بھارت اور امریکہ میں حملے کرنے والوں کو پناہ دی۔اس کے ایک ہی دن کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کا دوست قرار دیا۔ٹرمپ نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو 'عظیم لیڈر‘ بھی کہا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف الزامات کے بارے میں ایک سوال کا براہ راست جواب دینے سے بچتے ہوئے ٹرمپ نے ایران پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ دنیا کا نمبر ون دہشت گرد در اصل ایران ہے۔اس پیشرفت نے یقینابھارت میں لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایک روز قبل ہی ان میں سے بہت سے لوگوں نے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کی مشترکہ ریلی کو پاکستان کے خلاف ایک اور فتح کے طور پر پیش کیا تھا‘لیکن وزیر اعظم عمران خان اور ٹرمپ کی ملاقات کے بعد صورتحال یقینا بدل چکی ہے۔عالمی سیاست واقعی بے رحم ہے۔ہر ملک کو اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں۔سب سے اہم بات ایک ذمے دار ملک کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ۔
جغرافیائی طور پر پاکستان کو جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے‘ وہیںاس کی اہمیت بھی دوگنا ہے۔10ماہ قبل پینٹاگان کے ڈائریکٹر پریس آپریشنز کرنل راب میننگ‘ آف کیمرا نیوز کانفرنس میں برملا اظہار کر چکے کہ خطے میں پاکستان اور امریکا کے مشترکا مفادات ہیں اور افغان تنازعے کے حل کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔راب میننگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی عسکری تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے‘جبکہ انہی دنوں صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر تنقید جیسے بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان ان سے ڈالر لے کر ان کو خاطرخواہ نتائج نہ دے سکا۔ڈو مور کے مطالبے بار بارکیے جاتے رہے ‘ جس کے جواب میں پاکستان نے واضح طور پر کہا تھا کہ اب پاکستان پہلے اپنا مفاد دیکھے گا۔ پاکستان امریکی جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کر چکا۔ غیر کی جنگ میں 75 ہزار جانیں دیں اور 16482 ارب روپے کا نقصان اٹھایا ۔
الغرض وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے جو بھی نتائج نکلیں‘ مگر یہ بات قابل ِذکر ہے کہ پاکستان اب''ڈو مور‘‘ کے دور سے نکل چکا‘ نیزامریکہ ‘پاکستان کے درمیان اعتماد کا جو فقدان تھا ‘ وہ بھی کم ہوا ہے ۔