"NNC" (space) message & send to 7575

دنیا کے ممالک کی خارجہ پالیسیاں…(آخری قسط)

امریکہ کے بیشتر ایشیائی شراکت دار سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال ہیں‘ لیکن وہ عسکری حوالے سے کمزور ہیں‘ تاہم چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے براہ راست ردعمل کے طور پر‘ صورتحال میں بدلاؤ آنے لگا ہے۔مبصرین اور امریکی کے حامی کئی لوگ‘ چین کو بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔کئی عالمی تجزیہ نگار اس بارے میں متفق نہیں اوریہ ایک طویل بحث ہے کہ نا صرف ایشیاء ‘بلکہ عالمی سطح پر چین کی گرفت مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے‘اسے روکنا امریکی مفادات میں شامل ہے‘ لیکن علاقائی تسلط اورکسی چینی اقدام کو روکنے کیلئے امریکی کوششوں کے ساتھ وسیع تعاون کی ضرورت ہوگی۔
اہم ایشیائی ریاستوں کی تعداد سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کے بیشتر ایشین شراکت دار جمہوری ہیں اور امریکی گھریلو سیاست میں ضرورت سے زیادہ مداخلت نہیں کرتے ‘ ان وجوہ کی بناء پر‘ ان کی تزویراتی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ یہ امریکہ کے شرق اوسط میں شراکت دار ہی ہیں‘ جو سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہیں‘ کیونکہ اسرائیل نے فوجی قابلیت کے لحاظ سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ کا ایک قابل قدر اتحادی تھا‘ لیکن عراق کی دونوں جنگوں کے دوران امریکہ کے ساتھ رہا اور اسے پہلی جنگ کے دوران عراقی سکڈ میزائلوں کے خلاف اضافی امریکی تحفظ حاصل کرنا پڑا۔ امریکی اندرونی سیاست میں اس کا عمل دخل مشہور ہے‘ جسے حالیہ برسوں میں اسرائیل نے مزید متعصبانہ ہوا دی ہے۔ بنیامین نیتن یاہو کی حکومت نے ایران کے ساتھ فوجی تصادم میںاوور ٹائم کام کیا ہے۔
اسرائیل ‘امریکی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ میں جاسوسی کی وسیع سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں پالیسیاں اور مسلم نسل کشی طویل عرصے سے امریکی جمہوری نظریات سے متصادم بھی ہیں‘جس کی کئی امریکی مخالفت بھی کرتے ہیں‘عالمی سطح پر اس کے ان اقدامات پر کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ادھرواشنگٹن کی سعودی عرب کے ساتھ وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔ ریاض امریکی ہتھیاروں کو خریدتا ہے‘ لیکن ان کا موثر طریقے سے استعمال نہیں کرپاتا۔یہ سب امریکی حمایت اور تحفظ پر منحصر ہے۔ سعودی عرب کا تیل ایک اہم تزویراتی اثاثہ ہے‘ لیکن توانائی کے دوسرے ذرائع تیار ہونے کے ساتھ ہی اس کی قیمت بتدریج کم ہوتی جارہی ہے ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات ہی مقدم رکھے۔ مصر کی فوجی آمریت کے حوالے سے بات کریں ‘تو امریکی حمایت کے بارے میں بھی ایسے ہی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ماسکو کے ساتھ انقرہ کی چھیڑ چھاڑ‘ تیزی سے غیر جمہوری کردار اور امریکی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ بے اعتنائی سے ترکی کے ساتھ تعلقات کی جانچ کی جا رہی ہے۔مشرق وسطی میں امریکہ اپنے موجودہ شراکت داروں اور اپنے مخالفین کیلئے زیادہ مشروط اور کاروباری طرز عمل اپنائے ہوئے ہے۔ اس کا کوئی حالیہ اتحادی اتنا قیمتی یا نیک نیت نہیں کہ وہ غیر مشروط امریکی حمایت کا مستحق ہو۔ ایران کے بارے میں بات کریں توامریکہ پالیسی کو سخت پابندیاں عائد کرنے تک محدود رکھے ہوئے ہے‘ اگر سعودیوں‘ اسرائیلیوں‘ مصریوں اور دیگر لوگوں کو معلوم ہو کہ امریکہ ایران کے ساتھ بھی بات کر رہا ہے (چین اور روس معمول کے مطابق کچھ کرتے ہیں) تو وہ واشنگٹن کو خوش رکھنے کیلئے مزید کام کرنے پر راضی ہوں گے ‘ ان سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔
آخر کار اس معیارسے اتحادی کی حیثیت سے امریکہ کی قدر کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟ ایک طرف‘ امریکہ متحدہ دنیا کا واحد طاقت ور ملک ہے۔دوسری جانب چین سپر پاور کی دوڑ میں شامل ہے۔ امریکہ بھی جغرافیائی طور پر دنیا کے بیشتر حصوں سے دور ہے‘ لہٰذا یوریشیا یا افریقہ میں اس کے شراکت دار اس سے اتنا خوفزدہ نہیں ہیں۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں‘ تو بہت ساری ریاستیں‘ جنہیں اب بھی مقامی خطرات لاحق ہیں ‘ان کیخلاف امریکی تحفظ کی تلاش میں ہیں۔ امریکی سیاسی نظام بھی خاص طور پر غیر ملکی مداخلت کا شکار ہے اور اس کی خارجہ پالیسی اشرافیہ کو اس بات پر کاربند رکھتی ہے کہ وہ انہیں توانائی بخش عالمی قیادت سے تعبیر کریں‘ لہٰذا خارجہ حکومتیں بعض اوقات واشنگٹن کو اپنی طرف سے دور دراز کے بوجھ اٹھانے پر راضی کرسکتی ہیں‘لیکن دوسری طرف‘ طاقت اور فاصلے کا وہی امتزاج قائم ہے۔ 
امریکہ نے بالآخر جنوبی ویت نام کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیا ‘بالکل اسی طرح جیسے ٹرمپ نے شامی کردوں کے ساتھ کیا تھا ۔ امکان ہے کہ افغانستان میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ واشنگٹن نے متعدد مواقع پر کلیدی حلیفوں کے ساتھ ہارڈ بال کھیلا ہے اور بطور سابق امریکی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اس بات کا اظہار برملا کر چکے کہ بعض اوقات انہیں غلط فہمیوں میں گھسیٹاگیا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں