"RS" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات میں اہم رکاوٹ؟

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورۂ کابل اور اس سے قبل پاکستان کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششیں اس امر کی عکاس ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے اور اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کیلئے سنجیدہ ہے۔ یہ محض دوطرفہ تعلقات کی بحالی کی کوشش نہیں بلکہ خطے کے امن و استحکام کیلئے ایک اہم پیشرفت ہے۔ افغانستان کیلئے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے جب سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں پاک افغان دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے مثبت خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اسحاق ڈار کا دورۂ کابل اس بات کی دلیل ہے کہ اگر افغان مسئلے کو سمجھنے والے اذہان کو سامنے لایا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ اگست 2021ء میں کابل کے سقوط کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین ان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے اور اس مسئلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کا مقصد اس دیرینہ مسئلے کا حل تلاش کرنا تھا۔ ایجنڈا میں سرحد پار عسکریت پسندی سرفہرست تھی‘ جس پر پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی تنازعات اور دونوں ممالک کے معاشی تعلقات کو بہتر بنانے پر بھی بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی اہمیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کو نقل و حمل کے اخراجات میں کمی‘ ثقافتی قربت اور ایک دوسرے کی مارکیٹوں کی بہتر سمجھ ہے۔ یہ جغرافیائی قربت تجارت کو آسان اور نسبتاً سستا بناتی ہے۔ دونوں ممالک تجارت کے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے اپنی سرحدوں پر تجارتی سہولتوں کو بہتر‘ کسٹم کے طریقہ کار کو آسان بنا سکتے اور تجارتی معاہدوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ طویل خانہ جنگی کے بعد افغانستان کو تعمیرِنو کی ضرورت ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان افغانستان کو صنعتی اور زرعی مصنوعات برآمد کر سکتا ہے جبکہ افغانستان خشک میوہ جات‘ تازہ پھل اور دیگر قدرتی وسائل پاکستان کو فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی روابط کو بڑھانے کیلئے مشترکہ اقتصادی منصوبے شروع کرنا اور ایک دوسرے کی مارکیٹوں میں سرمایہ کاری دونوں ممالک کیلئے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا جو دہشت گردی کے خلاف اس کی سنجیدہ کوششوں کو واضح کرتا ہے۔ اس دورے کی اہمیت مذاکرات کو جاری رکھنے پر اتفاق تک ہی محدود نہیں تھی۔ پس پردہ ہونے والی بات چیت میں کئی اہم اور حساس امور زیرِ بحث آئے‘ جن میں خطے کی سلامتی اور مستقبل کے حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات شامل تھے۔ امریکہ اور نیٹو کے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان اور افغانستان میں کسی بھی بیرونی مداخلت کے مضمرات جیسے موضوعات پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔پاکستان کے وزیر خارجہ کی افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ خصوصی ملاقات اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کو ایک علاقائی خطرہ قرار دیا ہے اور اس کے خلاف ایک جامع حکمت عملی اپنانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں دہشت گردی کے متعدد مشترکہ چیلنجز سے نبردآزما ہیں‘ جن میں سب سے نمایاں سرحد پار عسکریت پسندی ہے۔ طویل اور غیر محفوظ سرحد دہشت گرد گروہوں کو دونوں جانب پناہ لینے‘ تربیت حاصل کرنے اور حملہ کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ خطے میں فعال مختلف دہشت گرد تنظیمیں جیسے کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان اپنے نظریات اور سرحد پار کارروائیوں کے سبب دونوں ممالک کیلئے مشترکہ خطرہ ہیں۔ افغانستان میں غیر ریاستی عناصر کا کنٹرول سے باہر ہونا بھی پاکستان کیلئے سکیورٹی چیلنجز پیدا کرتا ہے۔ معاشی بدحالی‘ بیروزگاری اور منشیات کی سمگلنگ جیسے مسائل دہشت گرد گروہوں کیلئے بھرتی اور مالی معاونت کے مواقع فراہم کرتے ہیں جو دونوں ممالک کیلئے مشترکہ سماجی و اقتصادی خطرات ہیں۔ ان چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کا باہمی تعاون ناگزیر اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کی مرحلہ وار واپسی کا اصولی فیصلہ کیا ہے جس پر عملدرآمد جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افغان باشندے اپنے وطن لوٹ چکے ہیں‘ تاہم افغان قیادت نے مہاجرین کی واپسی کے معاملے میں نرمی کی درخواست کی ہے۔ نائب وزیر اعظم کے حالیہ دورۂ کابل میں بھی اس درخواست کا اعادہ کیا گیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی جانب سے مہاجرین کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کیلئے آمادہ ہو۔ پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ مہاجرین کی باعزت واپسی کے ساتھ ساتھ اپنی سلامتی کو یقینی بنانا بھی اس کی اولین ترجیح ہے اور یہ دونوں امور افغانستان کے ٹھوس تعاون سے ہی طے پا سکتے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں بھی افغانستان کے ساتھ پیچیدہ مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ مذاکراتی کوششیں کی ہیں‘ جس کا واضح ثبوت جولائی 2022ء میں علما کے وفد کو افغانستان بھیجنا ہے۔ اس وفد میں شامل کئی شخصیات طالبان کے ہاں اساتذہ جیسا مقام رکھتی تھیں اور طالبان کی جانب سے ان کے ساتھ وعدے بھی کیے گئے تھے‘ تاہم بدقسمتی سے ان وعدوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا‘ جس کی ایک ممکنہ وجہ افغانستان میں موجود مختلف دھڑے بندیاں ہیں۔ ایک گروہ کسی معاہدے پر رضامند ہوتا ہے تو دوسرا گروہ اپنے مفادات کے تحت ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے‘ جن میں سب سے اہم ملک میں موجود مختلف دھڑوں کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دھڑے نہ صرف طالبان کے اندر موجود نظریاتی اور علاقائی اختلافات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان سب کی اپنی سیاسی اور انتظامی ترجیحات بھی ہیں۔ طالبان کی صفوں میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو مختلف پالیسیوں پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مختلف دھڑوں کی موجودگی طالبان حکومت کیلئے ریاست کی رِٹ قائم کرنے میں کئی طرح کی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ یہ عناصر مرکزی حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں۔داعش خراسان جیسی عسکریت پسند تنظیمیں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں اور مسلسل حملے کر کے عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں۔ افغانستان میں موجود دھڑے بندی ہی امن‘ خوشحالی اور دوطرفہ تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے اور ان عوامل کی موجودگی میں افغان قیادت کیلئے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا آسان نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کے حالیہ دورۂ کابل کے بعد بھی یہ خدشات اپنی جگہ برقرار ہیں کہ داخلی اختلافات کسی جامع اور قابلِ عمل حل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ان خدشات کے باوجود خطے میں پائیدار امن اور مشترکہ خوشحالی کیلئے مسلسل کوششیں جاری رکھنا ناگزیر ہے۔ پاکستان کا یہ عزم ہے کہ وہ صبر اور حکمت کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعمیری مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے گا‘ امید ہے کہ افغان قیادت باہمی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب ہو گی۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہو سکتا ہے لیکن دونوں ممالک کے روشن مستقبل کیلئے اس راہ پر گامزن رہنا ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں