گزشتہ ہفتے کچھ دن استنبول میں قیام کیا تو مولانا شبلی نعمانی بار بار یاد آئے، بلکہ میرے خیالات پر چھائے رہے۔ تقریباً ایک سو بائیس سال پہلے اُنہوں نے سفر نامہ روم و مصر و شام لکھا تھا۔ اُن کے کئی ماہ پر محیط دورے کے تاثرات آج بھی ذہن پر ثبت ہیں۔ دس سال پہلے یہ سفر نامہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ حیرت ہے کہ ممکنہ مصائب، دشواری، سفر کی صعوبتیں اُن کے جذبۂ حصولِ علم کو ماند نہ کر سکیں۔ کئی ماہ کے بحری سفر، اور شام اور دیگر کئی بندرگاہوں پر قیام کے بعد وہ ترکی پہنچے تھے۔ علم کا حصول کبھی بھی کتابوں تک موقوف نہیں رہا۔ آج سفر کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ چند گھنٹوں میں کہیں سے کہیں پہنچا جا سکتا ہے۔ مولانا کے زمانے میں، اور اُس سے قبل صدیوں سے رواج تھا کہ درویش، عالم اور مفکر دور دراز کے علاقوں میں جہاں کہیں کسی سے خبر ملی کہ کوئی اہلِ دانش موجود ہے، اُس کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض پاتے۔ کچھ وہیں کے ہو کر رہ جاتے‘ کچھ کو علم کی پیاس کسی اور منزل کی طرف لے جاتی۔ وہ دنیا کا مطالعہ کرتے۔ شبلی نعمانی کے سفر نامے نے ہندوستانیوں کو ترکو ں کی تہذیب اور معاشرے سے آگاہ کیا۔ اگرچہ یہ خاکسار پانچ سے زیادہ مرتبہ استنبول جا چکا ہے، مگر اس مرتبہ ترکوں کی معاشرت، دینی رجحانات اور ثقافتی رنگ کو علامہ کے سفر نامے کی روشنی میں قریب سے دیکھا۔
علامہ شبلی نعمانی نے ترکوں کے بارے میں دو باتوں کا ذکر نہایت متاثر کن انداز میں کیا ہے: تمام ترک علاقوں، شہروں اور دیہات میں، ہر جگہ اہلِ ثروت افراد نے خانقاہیں تعمیر کر رکھی ہیں جہاں دیگر ممالک سے سفر پر آنے والوں کے لیے مناسب رہائش اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ خانقاہیں ویسی نہیں جیسی آپ پاکستان میں بزرگوں کے مزارات کے قریب دیکھتے ہیں، بلکہ سرائے کی طرح تھیں۔ ان کا مقصد مسافروں کو قیام کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ کوئی مہمان اُن میں مہینوں تک قیام کر سکتا تھا۔ ہر خانقاہ میں ناظم مقرر تھے جن کی ذمہ داری مہمانوں کی خدمت تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ خود بھی خانقاہیں قائم کرتی تھی، لیکن زیادہ تر لوگ ایثار اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے تعمیر کرتے اور اس کا انتظام اپنے وسائل سے چلاتے۔ ترکوں کے ہاں اسلام کا اصل جذبہ انسان کی خدمت ہے۔ عبادات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی کوئی دوسری رائے، مگر ترکوں نے دین کی روح کو انسانی خدمت میں پایا ہے۔ صرف اسلام ہی نہیں، دیگر تمام مذاہب میں بھی خدمت کا شمار افضل ترین عبادات میں ہوتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ترکوں کے ایثار، انسان دوستی اور خیرات و صدقات کا بہت تذکرہ کیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دولت کے بارے میں مختلف ممالک میں اور معاشروں میں جو آراء پائی جاتی ہیں، اُن میں یکسانیت نہیں۔ ہمارے قبائلی اور جاگیردار معاشرے میں ارتکازِ زر کا جذبہ غالب ہے‘ اور یہی روش ہم موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں دیکھتے ہیں۔ مغرب میں البتہ ایسی سماجی اور فلاحی تحریکیں موجود ہیں جو اپنی کمائی ہوئی دولت کا ایک معقول حصہ معاشرے کی ترقی، تعلیم اور فلاح کے لیے خرچ کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ امریکہ کی عالمی شہرت یافتہ، صفِ اوّل کی جامعات چندے سے چلتی ہیں۔ ترکوں میں بھی وقف قائم کرنے اور ا س کے ذریعے تعلیمی درس گاہیں اور جامعات تعمیر کرنے کا رجحان صدیوں سے تھا، اور اب بھی ہے۔
دوسری بات، ترکی کے باب میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے ہے۔ علامہ صاحب نے ترکی کے تعلیمی نظام کا خوب مطالعہ کیا۔ سکولوں کے نصاب، بجٹ اور طرزِ تعلیم کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ اُنہوں نے منتظمین سے کئی نشستیں کیں، تاکہ بغور جائزہ لیا جائے، اور اس تجربے کی روشنی میں علی گڑھ کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اس مرتبہ خاکسار نے جس کانفرنس میں شرکت کی، اُس کا انعقاد جامعہ صباح الدین زعیم میں تھا۔ عالمی معیار کی یہ جامعہ چھ سو ایکڑ وسیع رقبے پر قائم ہے۔ اسے 1892ء میں ایک زرعی یونیورسٹی کے طور پر صباح الدین زعیم نے خدمت کے جذبے سے قائم کیا تھا‘ جس میں تقریباً ایک صدی تک زراعت اور اس سے متعلق شعبوں میں تعلیم اور تحقیق کا کام ہوتا رہا۔ اس وقت وہاں تمام شعبے قائم ہیں۔ ستائیس شعبوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جا رہی ہے۔ اس میں دس ہزار طلبا اور طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں تین ہزار طلبا بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ یہاں پاکستانی طلبا سے بھی ملاقات ہوئی۔ ابھی تک یہ یونیورسٹی وقف سے ہی چل رہی ہے۔ اسے چندے کی ضرورت رہتی ہے۔ ترکوں کا جذبۂ ایثار اتنا وسیع ہے کہ وہ ایک نہیں، ایسی کئی جامعات اور ہزاروں سکول وقف سے چلا رہے ہیں۔ ترک قانون کے مطابق کوئی بھی شہری اپنا تمام انکم ٹیکس حکومت کی بجائے کسی بھی وقف کو دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ وقف حکومت سے تسلیم شدہ ہو۔ ترکی غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جس نے یہ رعایت دے رکھی ہے۔ اس قانون کا مقصد ترکوں کے ایثار اور خدمت کے روایات کو برقرار رکھنا ہے۔
ترکی میں اس وقت دو سو سے زیادہ جامعات ہیں جن کا معیار پاکستان اور خطے کی دیگر جامعات سے بہت بلند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے تقریباً پانچ ہزار طلبا ترکی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ صباح الدین زعیم یونیورسٹی اور دیگر جامعات مستحق طلبا کو وظائف فراہم کرتی ہیں۔ جن طلبا سے میری ملاقات ہوئی، وہ سب وظائف لے رہے تھے۔
خاکسار نے تقریباً دس سال تک امریکہ کی چھ جامعات میں فرائض سر انجام دیے ہیں۔ باقی ساری عمر پاکستانی جامعات میں گزری ہے۔ بہت سے ممالک کی جامعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں نے جامعہ صباح الدین زعیم کو بہت منفرد پایا۔ یہاں مشرق اور مغرب کا عمدہ امتزاج ملتا ہے، مہذب ماحول ہے، شور و غل اور گندگی سے مکمل طور پر پاک۔ صفائی دنیا کی بہترین جامعات سے بھی بہتر نظر آتی ہے۔ مساوات ایسی کہ تمام ملازمین، طلبا اور اساتذہ اور دیگر ممالک سے آئے مہمان ایک ہی کیفے ٹیریا سے کھانا کھاتے ہیں۔ معیار ایسا کہ بہترین ہوٹل بھی مہیا نہ کر سکیں۔ اس بات کی خوشی ہے کہ لاہور میں جس یونیورسٹی میں سترہ سال تک قیام کیا، وہاں بھی مساوات کا یہی اصول نافذ ہے۔ عام مالی سے لے کر تمام طلبا اور اساتذہ کو ایک ہی معیار کا کھانا، ایک ہی جگہ پر مہیا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے معیار کا موازنہ ترکی کی جامعات سے یقینا نہیں کیا جا سکتا۔
اب میں مولانا شبلی نعمانی کی دو اہم باتوں کی طرف آتا ہوں، جو کہ تعلیم اور خدمت ہیں۔ یہ وہ راز ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے جدت پسند مسلمانوں نے پا لیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے طاقت، شناخت اور ترقی حاصل کرنی ہے تو تعلیم ہی کو اس کا زینہ بنانا ہو گا۔ تعلیمی ادارے خود بھی بنانے ہوں گے۔ صرف ریاستی وسائل پر انحصار نہیں کر سکتے۔ معاشرے کی تعمیر جدید تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ وہ تعلیم جس کا مقصد خدمت اور ایثار کو فروغ دینا اور غریب افراد کو اوپر اٹھانا ہو۔ علی گڑھ نے بر صغیر میں جدید اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح انجمن حمایتِ اسلام اور دیگر اداروں نے اسلامیہ کالج پشاور جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے۔ علم کی روشنی سے ہی ہمارے معاشروں کی تعمیر اور ترقی ممکن ہے۔ اسی کے ذریعے ہم اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ کاش ہم ترکی کی طرح اپنے ہاں سے بھی کوئی ایسی مثال دے سکتے۔ آج پاکستان کو ایک نہیں، کئی سو جامعات کی ضرورت ہے۔ ایثار اور خدمت کا جذبہ پھر سے بیدار کریں۔ آپ کی دولت میں معاشرے کا بھی حصہ ہے۔ یہی سماجی انصاف اور حقیقی اثاثہ ہے۔