جو لوگ انقلاب کے سنہری خواب بننے اور معاشرے اور ریاست کو تبدیل کرنے کے بڑے بڑے منصوبے گھڑتے ہیں‘ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہر جگہ ایسے خواب اور منصوبے تاریخ میں کچرے کے ڈھیر بن گئے۔ انقلاب کے نعرے لگانے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل تھا۔ کارل مارکس‘ لینن اور مائوزے تنگ کی کتابیں پڑھتے۔ کسی کھوکھے پر بیٹھ کر تجزیے‘ تبصرے کرتے اور انقلابی عمل کو آگے بڑھانے کی ترکیبیں سوچی جاتیں۔ 'ایشیا سبز‘ والوں سے جامعہ پنجاب میں ٹکرائو ہوتا تو 'ایشیا سرخ ہے‘ کے نعرے بلند کرتے۔ ان میں سے اکثر انقلابیوں سے بہت عرصہ بعد امریکا میں کہیں نہ کہیں ملاقات ہوئی۔ ہم تو تعلیم و تحقیق کے بعد وطن واپس لوٹ آئے مگر بڑے بڑے انقلابی مغرب یعنی سامراجی ممالک میں جا بسے۔ کچھ کو ہماری جامعات برداشت نہ کر سکیں۔ انہیں زبردستی نکال باہر کیا گیا۔ باہر بس جانا ان کی مجبوری بن گیا۔ یہ صرف پاکستان کی داستان نہیں‘ ہر ترقی پذیر ملک کی کہانی ہے۔ ترقی پذیر ہوں یا قدامت پسند‘ سیکولر ہوں یا مذہبی رجحانات رکھنے والے‘ سب ایک دوسرے سے بڑھ کر انقلابی۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ تاریخ میں صرف چند انقلاب اور وہ بھی مخصوص حالات میں رونما ہوئے‘ اور ایسے انقلابات کے بعد لوگوں کے ساتھ جو کچھ بیتی‘ تاریخ پڑھ کر دل آزردہ ہو جاتا ہے۔
جن قوموں نے ترقی کی ہے اور اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ چھوٹی تبدیلیوں کے مسلسل عمل سے ممکن ہوا۔ ایوب خان کی حکومت نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کی‘ ایک کے بعد دوسری‘ ہر سال کے لئے اہداف مقرر کئے اور ریاست کی تمام مشینری ان اہداف کو پورا کرنے میں لگا دی۔ ملائیشیا‘ ترکی اور مغربی ممالک نے بھی ایک قدم سے اگلا قدم اٹھایا اور جب ترقی کی راہ چلنا شروع کر دیا تو رفتار بڑھتی گئی۔ گزشتہ بیس برسوں میں ہم نے دو مختلف قسم کے سیاسی نظاموں میں دس سال آمرانہ حکومت‘ پھر دس سال جمہوریت اور دو عوامی حکومتیں گزاریں‘ اب تیسری عوامی حکومت کا دور جاری ہے۔ میں تبدیلی کے بارے میں یہ سطور کسی ایک حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے نہیں لکھ رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مجموعی طور پر معاشرے میں اور عام آدمی کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔ کچھ کا ذکر میں گزشتہ کالم میں کر چکا‘ چند مزید تجزیات پیش خدمت ہیں۔ یہ المیہ ہی ہے کہ جانبدارانہ سیاست‘ باہمی رقابتیں اور نفرتیں اتنا غلبہ حاصل کر چکی ہیں کہ سیاسی حریفوں کا کیا ہوا اچھا کام بھی برا لگتا ہے۔ اس قطبیت کی وجہ سے سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی تبدیلی یا ترقی ہے؟ وہ فوراً سنگاپور اور امارات کے حوالے دے کر مات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نہ ملک کے اندر کچھ اچھا نظر آتا ہے اور نہ ہی انہیں یہ کوئی یقین ہے کہ ہم نے ماضی میں شاندار ترقی کی اور اب بھی کر سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جاری رہیں تو وہ سب مل کر ایک انقلاب کی سی صورت پیدا کر سکتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ایک تبدیلی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ غالباً یہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں ممکن ہوا‘ جب حکومت نے موبائل فون کمپنیوں کو چوتھی جنریشن کی خدمات مہیا کرنے کی اجازت دی۔ ابتدا میں جب اس ناچیز نے دو نجی اداروں (اوبر وغیرہ)کی گاڑیوں میں سفر کرنا شروع کیا تو یقین نہ آیا کہ فاصلے کی پیمائش‘ کرایہ کے تعین‘ گاڑیوں کی نقل و حرکت اور عین اس جگہ جا کر رکنا جہاں سے بکنگ کی گئی‘ ممکن ہے۔ یہ سب حیران کن تھا اور اب بھی ہے۔ میں لاہور میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں‘ جن کی اپنی گاڑیاں ہیں‘ مگر وہ دفتر جانے کے لئے انہی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ میں خود پانچ برسوں سے اس سروس سے لطف اندوز ہو رہا ہوں‘ کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس نئے اور بڑھتے ہوئے شعبے نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کی زندگی آسان کر دی ہے‘ جن میں دفتروں‘ سکولوں اور کالجوں میں کام کرنے والی خواتین اور طلب علم بچے شامل ہیں۔ یہ خاکسار استعداد کے باوجود اپنی گاڑی رکھنے اور بے ہنگم ٹریفک میں چلانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کے علاوہ بے شمار بے روزگار اور ریٹائرڈ افراد کو مناسب روزگار کی سہولت میسر آ گئی ہے۔ وہ کسی وقت کے پابند نہیں‘ بلکہ مرضی سے‘ وقت نکال کر کام کرتے ہیں۔ ایک دفعہ میری ایک بینکر سے ملاقات ہوئی جو چھٹی کے دن نجی اداروں کے تحت اپنی گاڑی چلا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ فارغ وقت میں یہی کام کرتا ہے۔ اس طرح گھر میں کھڑی گاڑی اور فارغ وقت سے نوکری پیشہ لوگ بھی مالی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سب پڑھے لکھے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس وقت میری حیرانی کی انتہا نہ رہی‘ جب میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی کی کیپٹن ایک خاتون ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں چالیس سے زیادہ پڑھی لکھی خواتین اسی طرح گاڑیاں چلا کر معقول آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ اب موٹر سائیکلوں‘ ویگنوں اور بسوں تک پھیل چکا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سیٹ اپ پبلک ٹرانسپورٹ کا متبادل نہیں ہو سکتا‘ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور مرکزی شہر اسلام آباد میں سرکاری ٹرانسپورٹ کا ابھی تک کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ دیگر شہروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ لاہور میں میاں شہباز شریف نے اپنی ضد پر قائم رہ کر میٹروبس سروس بنا ہی ڈالی۔ متبادل اس سے بہتر بھی تھے‘ مگر وہ اگلے الیکشن کے بخار میں مبتلا تھے اور تبدیلی اور ترقی کے مناظر عوام کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔ اب جو بن گیا ہے‘ اچھا ہی ہے بلکہ بہت ہی اچھا ہے۔ دو مرتبہ میٹرو بس پہ خاکسار کو سفر کرنے کا موقع ملا۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ وقت کم از کم حیران کن حد تک کم صرف ہوا۔ دھکم پیل کے تو ہم اومنی بس کے زمانے سے عادی ہیں۔ میاں برادران نے اورنج لائن ٹرین بھی بنا ڈالی‘ جس کے ڈیزائن سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ یہ انتہائی بیکار ہے‘ اور لاہور کے تاریخی‘ ثقافتی اور عمارتی ورثے پہ ایک بدنما دھبہ ہے۔ سب وے بننا چاہئے تھے‘ اس پر لاگت کچھ زیادہ آتی اور وقت کچھ زیادہ صرف ہو جاتا‘ لیکن پائیدار چیز بنتی۔ جس طرح دہلی نے کیا‘ لاہور کو بھی وہی کرنا چاہئے تھا۔ یہ سب کچھ کہنے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میٹرو بس اور اورنج لائن نے لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے‘ مگر بہتر منصوبہ بندی کے تحت۔ میاں نواز شریف صاحب نے لاہور اسلام آباد موٹروے کی بنیاد رکھی تو ملک میں ایک طوفان برپا ہو گیا تھا۔ ان کے مخالفین جب برسر اقتدار آئے تو اس منصوبے پر کام کچھ عرصہ بند رہا۔ آج سب لوگ اس موٹروے کی اہمیت کے قائل ہو چکے ہیں۔ ریلوے کو ترجیح دینی چاہئے تھی۔ اب بھی میرا خیال ہے کہ ریلوے ہی مستقبل کے لئے بہتر‘ سستا اور تیز تر وسیلۂ نقل و حرکت ہو سکتا ہے۔ موٹروے نے ملک کو نہ صرف جوڑا بلکہ سفر آسان کر دیا ہے۔ یہ خاکسار پچھلے سترہ برسوں سے اسلام آباد اور لاہور کے درمیان ہفتہ وار سفر کر رہا ہے۔ اگر یہ موٹروے نہ ہوتی تو کم از کم میں لمز یونیورسٹی کی نوکری نہ کر پاتا۔ لاہور تا ملتان اور ملتان تا سکھر موٹرویز نے‘ جو میاں نواز شریف کی تیسری حکومت میں بنیں‘ جنوبی پنجاب کو دیگر شہروں سے نہ صرف قریب کیا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر بھی ڈال دیا ہے۔ اس منصوبے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ سیاسی رقیبوں اور رقابتوں کی بات اور ہے۔
پھر قومی سلامتی اور داخلی امن کے حوالے سے مثبت پیش رفت کا ذکر بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ پاکستان کی افواج‘ پولیس اور دیگر اداروں نے دہشت گردی کا جانفشانی سے مقابلہ کیا۔ ہر قسم کی بڑی سے بڑی قربانی دی اور جس تدبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا‘ اس کی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ جو کام امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے‘ بہترین اسلحے‘ بھاری فوج اور ایک کھرب ڈالر لگانے کے باوجود افغانستان میں نہ کر سکا‘ وہ ہم نے کر دکھایا۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو کراچی کیسے یرغمال تھا۔ ایک اشارے پر بند کر دیا جاتا تھا۔ بوری بند لاشیں ملنے کا سلسلہ عام تھا۔ تمام چینلز پر صرف ایک ہی تصویر اور آواز ہوتی۔ سرحدی علاقے ہوں یا بلوچستان‘ اب صرف دہشت گردی کی باقیات ہیں‘ ان میں نہ وہ سکت‘ نہ وہ تنظیم‘ نہ کوئی تحریک‘ دہشت گردی کا عفریت دم توڑ چکا ہے۔ (جاری)