جمود کسی معاشرے میں زیادہ دیر ٹکتا نہیں‘ تبدیلی یعنی زندگی کے ہر شعبے میں عمل پیہم کی کیفیت جاری و ساری رہتی ہے۔ کمزور ریاستوں اور ناکام حکومتوں میں وہ تبدیلی‘ جس سے عوام کی حالت سدھر جائے‘ معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے‘ انصاف جلد ملے‘ حکومت کی طرف سے خدماتی شعبے فعال ہوں اور اداروں کی کارکردگی بہتر ہو‘ سیاسی قیادت‘ اس کی سمت اور وژن کی محتاج ہوتی ہے۔ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے ایسی ہی تبدیلی کا پاکستانی عوام کو خواب دکھایا۔ دو دہائیوں کی جدوجہد‘ کرپشن اور موروثی سیاسی خاندانوں کے خلاف بیانیہ آخر کار ان کو ایوان میں لے ہی آیا۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے حق میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں انفرادی طور پر زیادہ ووٹ پڑے‘ مگر حزب اختلاف کے مجموعی ووٹوں کو دیکھا جائے‘ تو بہت کم۔ دیگر جماعتوں کی نسبت مرکز میں زیادہ اراکین اسمبلی منتخب ہوئے‘ مگر تحریک اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ پنجاب میں تو مسلم لیگ نون کی اکثریت تھی۔ میرے نزدیک اگر جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کی پاسداری ہوتی تو سب سے بڑے صوبے میں اسی جماعت کی حکومت بننی چاہئے تھی۔ خان صاحب کے لئے دو راستے تھے۔ پہلا‘ جو انہوں نے بغیر کسی گہری سوچ بچار کے فوراً ہی چن لیا‘ چھوٹی جماعتوں کو لالچ دے کر حکومت بنانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی معاملات کی وجہ سے پاکستان میں دھڑے بندی کی سیاست نے ترقی کی ہے۔ یہاں کون ہے جو ایسے مواقع کو ضائع کرے اور ریاست کی طرف سے انتظامی اور ترقیاتی وسائل کی فراہمی سے انکار کر کے اپنے دھڑے کو کمزور کرے؟ پانچ مختلف سیاسی دھڑوں کے چوبیس اراکین اسمبلی کی مشروط حمایت سے تحریک انصاف مرکز میں حکومت بنا سکی۔ پنجاب میں بھی ق لیگ اور آزاد اراکین کی شمولیت ناگزیر ہو گئی تھی۔
خان صاحب کے لئے دوسرا راستہ بھی تھا بلکہ تیسرا اور چوتھا بھی‘ مگر اتحادی مختلف ہو سکتے تھے اور حکومت کی نوعیت اور اس کے اندر اقتدار کی تقسیم کے کئی مراکز ہو سکتے تھے۔ دوسرا راستہ تھا کہ وہ اپنا بیانیہ جاری رکھتے‘ حکومت بنانے سے انکار کرتے‘ اور حزب اختلاف میں رہنے پر مصر ہوتے۔ ایسے میں نئے انتخابات فوراً ناگزیر ہوتے اور اس دوران ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہتا۔ یہ دیوانوں کی سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اگر مقصد ملک میں بنیادی اصلاحات ہی لانا تھا تو اس کے لئے پارٹی کی اپنی عددی اکثریت لازم تھی۔ میرے خیال میں گزشتہ انتخابات میں جانے سے پہلے ہی خان صاحب یہ طے کر چکے تھے کہ وہ نظریاتی سیاست کرتے رہے تو ان کا انجام تحریک استقلال اور ایئر چیف مارشل اصغر خان سے مختلف نہ ہو گا۔ عام روزمرہ سیاست دانوں کے لئے اقتدار اور صرف اقتدار ہی مطلوب و مقصود رہتا ہے‘ لیکن بلند کردار رہنمائوں کے لئے اقتدار ایک وسیلہ ہوتا ہے‘ جس سے وہ معاشرے کو مثبت انداز میں تبدیل کر سکیں۔ یہ بات تو سب پہ عیاں ہے کہ پاکستان ایسے معاشرے میں ہر سطح پر اصلاحات اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سرکاری شعبے ہر سطح پر زوال پذیر‘ رشوت ستانی کا بازار گرم اور ہر نوع کے مافیاز کی لوٹ مار زوروں پر ہے اور یہ سلسلہ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ انتخابی سیاست‘ سیاسی جماعتیں اور کسی حد تک برقی میڈیا بھی گہرے اور مضبوط مفاد پرست گروہوں کے غلبے میں آ چکا ہے۔ شہری بے بس‘ عام آدمی نا امیدی کا شکار اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہی۔ خصوصاً نوجوان طبقہ ایسی جماعت اور ایسے رہنما کی امید میں سانس لینے لگا‘ جو مل کر ملک و قوم کی تقدیر بدل دے تاکہ وہ ایک پُرامن‘ ترقی یافتہ‘ خوشحال اور با وقار ملک کے شہری شمار ہوں۔ اب بھی نوجوانوں کا خواب یہی ہے اور یہ ہر مملکت میں یکساں ہے۔ عرب بہار سے لے کر افریقہ کے صحرائوں اور لاطینی امریکہ کے ممالک تک نوجوان‘ مرد اور خواتین ایسی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں جو ان کے مسائل حل کرے‘ معیشت کو بحال کرے اور قانون کی عمل داری یقینی بنائے‘ ایسی ریاست‘ جہاں ان کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کے وافر مواقع نصیب ہوں۔ گزشتہ انتخابات کے حوالے سے جو بھی شماریات اور تحقیق ہمارے سامنے آئی ہے‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت نے عمران خان صاحب کا عَلم ہی بلند کیا‘ انہیں کے نعرے لگائے اور بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عمران خان صاحب نے انتخابات جیتنے کے لئے اپنی جماعت کی سماجی اساس سے کہیں زیادہ اپنی نظریں موروثی سیاسی خاندانوں پر گاڑ لی تھیں۔
ایک لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ خان صاحب بھی حقیقت پسند ہو گئے کہ انتخابی حلقوں میں روایتی طور پر طاقت ور سیاسی خاندانوں کی حمایت کے بغیر وہ اقتدار میں نہیں آ سکتے تھے۔ جب انتخابات کے لئے ٹکٹیں تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا تو نظریاتی اراکین کو‘ جو عرصے سے تحریک کے لئے کام کر رہے تھے‘ یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ خان صاحب کو ایک غلط فہمی تب بھی تھی اور اب بھی ہے‘ یہ کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں اپنی تحریک کی عوامی سطح پر جگہ بنائے بغیر کوئی تبدیلی ملک میں لا سکتے ہیں۔ ڈیڑھ سال میں کچھ تجربہ ہو گیا ہو گا‘ مگر اس امر کا احساس سب کو تھا‘ جو سیاست کو تاریخ اور سماجی رویوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں‘ کہ جو خواتین و حضرات دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر انتخابات کے نزدیک تحریک انصاف میں شامل ہوئے‘ ان کا مقصد تبدیلی نہیں‘ اقتدار میں آنے کے بہتر امکانات تھے۔ جاگیردارانہ معاشرے میں با اثر افراد اور خاندان سیاست میں اپنا مقام قائم رکھنے اور موقع ملے تو بڑھانے کے لئے انتخابی عمل کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا موقع تھا کہ ان با اثر خاندانوں کو عمران خان صاحب کی عوامی مقبولیت کی ضرورت تھی اور خان صاحب کو ان کے حلقوں میں سماجی اساس کی ناگزیری درپیش تھی۔ یہ سب پُرانا کھیل ہے‘ جو روایتی سیاسی خاندانوں نے بار بار کھیلا ہے۔ اور یہی ڈرامہ دو بڑی موروثی سیاسی جماعتوں نے بھی ہر بار لگایا ہے۔ تبدیلی کے وہ خلاف نہیں ہو سکتے‘ مگر ایسی تبدیلی جس سے ان کے اضلاع میں ان کی نہ سنی جائے‘ اہم سرکاری اہلکاروں کی تعیناتیاں اور تبادلے ان کی مرضی کے مطابق نہ ہوں اور اربوں‘ کھربوں کے ترقیاتی فنڈز ان کی ہتھیلی پہ نہ رکھے جائیں‘ ان کے خلاف ہے۔ یہی تو وہ ریاستی وسائل ہیں جن کے زور پہ سیاسی قبائل پیدا کئے گئے ہیں اور روایتی سیاسی خاندان غالب ہیں۔ بارہا غیر سول اور کچھ سول حکومتوں نے ان وسائل کی فراہمی یا برقراری کو منقطع کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ ہمیشہ فارورڈ بلاک اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔ آج بھی ان کا مکالمہ یا بیانیہ تحریک انصاف کے اندر یا باہر قہوہ خانوں میں اور دوسری جگہوں پر یہی ہے کہ تحریک کی حکومت انہیں ''عوام کی خدمت کرنے سے روک رہی ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ضلع کی انتظامیہ ان کے حوالے کی جائے اور ترقیاتی فنڈز جہاں سے بھی قرضہ ملے‘ لے کر ان کے حوالے کئے جائیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کا کتنا حصہ با اثر اراکین‘ ان کے حلقے میں ان کے حمایتیوں اور سرکاری اہلکاروں کی جیب میں جاتا ہے۔
سیاسی اتحادی بھی تو دھڑے بندی کی سیاست کرتے رہے ہیں‘ اور اسی کے سہارے سیاسی سانس لیتے ہیں۔ ان کے مطالبات بھی وہی ہیں جو روایتی سیاسی گھرانوں کے ہیں۔ دھڑے بندی کی سیاست سے وابستہ اتحادیوں اور تحریک انصاف کے اراکین کا زور بڑھتا جا رہا ہے کہ پنجاب میں حکومتی اداروں کی خود مختاری کے تجربے کو ختم کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف وزیر اعظم ہائوس سے ہی کوئی اثر لیتے ہیں‘ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہدایات وہیں سے آتی ہوں۔ تو پھر یہ کیسی خود مختاری ہوئی۔ تحریک انصاف اور خان صاحب نے بھی روایتی سیاست اور دھڑے بندی کی سیاست کو گلے لگا لیا ہے۔ اقتدار کی کرسی تک رسائی اصولوں سے سمجھوتے کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں تبدیلی تو خواب ہی رہے گی۔