نہ جانے کن کن گروہوں نے ترقی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘ مگر ترقی کے فلسفے‘ تاریخ اور اس کے اصولوں سے ان کی آشنائی فقط واجبی سی ہے۔ ہوا یوں ہے کہ سرگرم گروہوں نے ترقی پذیر ممالک میں ترقی پسندی اپنی سیاسی شناخت کے طور پر اختیار کر رکھی ہے۔ ایک لحاظ سے تو قدامت پسندوں سے لے کر آزاد روئوں تک‘ سب ترقی پسند کہلا سکتے ہیں‘ کہ ترقی سب چاہتے ہیں‘ سب خواہش رکھتے ہیں مگر ترقی کے معیار‘ ذرائع‘ سیاست اور نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر روایتی ترقی کے میدان میں کچھ نمایاں مثالیں تلاش کی جائیں تو خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ نظریاتی طور پر یہ قدامت پسند‘ خاندانی و موروثی بادشاہتیں ہیں۔ ایسی بادشاہتیں دنیا بھر میں ختم ہو چکی ہیں‘ مگر اس خطے میں وہ مادی اور شہری ترقی کا دنیا بھر میں ایک معتبر حوالہ بن چکی ہیں۔ اس معیار کو مدِ نظر رکھ کر دیکھا جائے تو چند دہائیوں میں انہوں نے تیل کی دولت کے زور پر بلا شبہ خیرہ کن ترقی کی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ریت کے ٹیلوں پر بلند و بالا جدید عمارتوں کا دلچسپ امتزاج پیدا کر دیا ہے۔ برج خلیفہ سے کون واقف نہیں۔ ان ریاستوں میں جا کر ان کی اس ترقی کا مشاہدہ کریں تو مغرب کی کسی ترقی یافتہ ریاست کا گمان ہوتا ہے۔ صرف موسم‘ زمین‘ وہاں بسنے والے خاندان‘ کام کرنے والے لوگ‘ حکمران اور طرزِ حکمرانی جیسے عوامل مختلف ہیں۔ باقی سب ایک جیسا ہی لگتا ہے۔ ترقی کا یہی سلسلہ بلکہ یہی طریقہ چین‘ مشرقی ایشیا کے علاوہ ہمارے ملکوں میں بھی اپنایا جا رہا ہے۔ کاش یہ بھی کسی کو معلوم ہو کہ اپنی ثقافت‘ تہذیب اور روایات کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے ان کی جگہ فلک بوس برج تعمیر کرنا کوئی حقیقی ترقی نہیں ہے۔ اس نوعیت کی ترقی کی دوڑ میں نہ صرف مادی وسائل بلکہ افرادی قوت کو‘ جس کی تعداد مقامی باشندوں سے کہیں زیادہ ہے‘ درآمد کیا جاتا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ آبادی کے نسلی‘ ثقافتی اور علاقائی رنگوں میں مسلسل نئی آمیزش ہوتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ پُرانی آبادیوں کا اپنا تاریخی حلیہ مکمل طور پر مسخ ہو چکا ہے۔
ان میں سے کچھ کی شناخت اب لوٹی ہوئی دولت کے لیے محفوظ ٹھکانوں اور قومی دولت کے لٹیروں کی رہائش گاہوں کے طور پر ہوتی ہے‘ اور جن ممالک کی دولت لوٹی جا رہی ہے ان میں صرف پاکستان نہیں‘ دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں۔ وطنِ عزیز ہو یا کوئی اور ترقی پذیر ملک‘ نو دولتیے اور لوٹ مار کی دولت کمانے والے گروہ‘ خاندانوں سمیت ان ریاستوں میں خریداری کرتے خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور فخر کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ یہ نا چیز جب بھی کسی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں ان ریاستوں میں گیا‘ ان حکمرانوں کی عقل پر نوحہ خوانی ہی کی ہے۔ اس مادی‘ بے روح اور بے ترتیب بھدی ترقی کے پیچھے بڑی مغربی طاقتوں کے مفادات کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ ان ریاستوں کو تیل سے جو وافر دولت حاصل ہو رہی ہے اس دولت میں وہ (مغربی طاقتیں) کیسے حصہ دار بنیں۔ تعمیرات کے اس طویل اور دراز سلسلے میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو کھلونا ہی سمجھئے۔ ان کے خاکے بنانے‘ ان خاکوں کو تعمیر کی صورت میں متشکل کرنے‘ تعمیراتی سامان درآمد کرنے یا مقامی طور پر تیار کرنے‘ گویا ہر شعبے میں مغربی کمپنیاں شامل اور شریک تھیں۔ یہ منصوبے (دوسرے لفظوں میں کھلونے) ان کے حوالے کئے تو تیل کی ادا کی ہوئی قیمت دولت کی شکل میں واپس مغربی ممالک کے بینکوں میں ترسیل ہونا شروع ہو گئی۔ یہ ریاستیں جب تیل کی دولت سے امیر ہو گئیں تو انہیں سلامتی کے خطرات بھی لاحق ہوئے‘ یا کچھ انہی مغربی ممالک کی جانب سے پیدا کر دئیے گئے۔ انہیں زور دے کر کہا گیا کہ فوجیں بنائیں اور جدید اسلحے کی خریداری مسلسل ہوتی رہے تاکہ وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنا سکیں اور کسی بھی دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ کچھ خیالی دشمن بھی پیدا کر دئیے گئے ہوں گے۔ اب تک یہ ممالک کئی سو ارب ڈالرز کا اسلحہ خرید چکے ہیں‘ اور انہی مغربی طاقتوں کی جانب سے ہر دس سال بعد انہیں نیا آرڈر دینے کا 'دوستانہ‘ مشورہ ملتا ہے‘ جو یہ اسلحہ تیار کرتی ہیں۔ کچھ ذیلی یا طفیلی ممالک بھی اپنے ہاتھ اس دولت سے رنگ رہے ہیں۔ ہم تو کچھ سبزیاں‘ پھل‘ چاول اور سب سے بڑھ کر افرادی قوت برآمد کرتے ہیں۔ یہ بے چارے غریب نوجوان اپنی زندگی کا بہترین وقت اپنے ادھورے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے میں ضائع کرتے رہے ہیں۔ ان کی کمائی زرِ مبادلہ میں ہماری تمام برآمدات سے تھوڑی سی ہی کم ہے۔ ان کی محنت کی کمائی بذریعہ ہنڈی ہمارے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے حکمران اور بد عنوان اشرافیہ‘ دونوں انہیں ممالک میں یا کہیں دور پاناما میں‘ انگریزی جزیروں میں اور مغرب کے ممالک میں خفیہ املاک کی خریداری پر صرف کرتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ آج کی دنیا کا عرب‘ پاکستانی‘ بھارتی یا کسی اور ملک کا شہری مغرب کے شہروں اور ان کی ترقی سے اس قدر کیوں مرعوب ہے؟ اس سوال کا جواب ہماری نو آبادیاتی دور کی غلامی میں کئی نسلیں تباہ ہونے میں مضمر ہے۔ ڈیڑھ دو صدیاں غلامی اور اس کے بعد آزادی ملی بھی تو موہوم اور نامکمل کیونکہ حکمرانوں کا رخ بدستور مغرب کی طرف ہی رہا۔ وہ اپنی پالیسیاں مرتب کرنے‘ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے‘ فیصلے کرنے اور اقتصادی معاملات کے لیے بار بار مغرب کی طرف دیکھتے ہیں‘ گویا از خود کچھ کرنے کے قابل ہی نہ ہوں۔ نہ کبھی کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی‘ نہ کبھی ذہنوں میں یہ خیال در آیا‘ نہ ہی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سامراجیت کی صدی میں ہم کیا گنوا بیٹھے۔ سامراجیوں نے اپنے نظام‘ فلسفے اور ترقی کے نظریے کا ایسا رنگ چڑھایا اور ایسی جادوگرانہ سوداگری کی کہ ہم ابھی تک اس کے سحر میں گرفتار بلکہ اس کے غلام ہیں۔
عربوں نے تو تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر بے ڈھنگی ترقی کا ریکارڈ قائم کر دیا‘ مگر ہم بھی ویسے ہی خوابوں کی تعبیر ملک کے ہر حصے میں نئی بستیاں بسا کر اور آبادیاں بنا کر تلاش کرنے کی بے لگام خواہش کے اسیر ہو چکے ہیں۔ گوادر ہو یا کراچی‘ لاہور یا اسلام آباد‘ سب شہروں میں دوبئی کی بلند و بالا عمارتوں کے عکس کے پس منظر میں نئی بستیوں کے اشتہار کھمبوں‘ درختوں اور جہاں جگہ ملے‘ آویزاں ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی دیگر نو آبادیاتی نظام اور غلامی کے شکار ممالک کی طرح اپنی ثقافت کے تاریخی تسلسل کو نیست و نابود کر ڈالا ہے۔ اس کی ابتدا تو سامراجی ممالک نے کی تھی‘ مگر ہم ان کی اندھی تقلید اور ترقی کے بے ربط منصوبوں کی تکمیل میں کئی قدم آگے نکل چکے ہیں۔ مغرب کے شہروں میں گھروں کی تعمیر ہو‘ کاروبار کے مراکز‘ تفریح کے مقامات یا سکول اور جامعات ہوں‘ لگتا ہے کہ مربوط نظامِ عمارت سازی میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ شہر کی اپنی عمارتی شناخت ہے‘ جس میں کبھی بھی وہ ایسی ویسی‘ الٹی سیدھی تبدیلی نہیں کریں گے۔ پُرانے گھر اور عمارتوں کی حفاظت کے لئے ہر جگہ قوانین ہیں‘ جن سے انحراف ممکن نہیں۔ مالکان نہ انہیں گرا سکتے ہیں‘ نہ ان میں ایسی تبدیلیاں کر سکتے ہیں جن سے عمارت کی قدیمی شناخت متاثر ہو۔
لاہور کی شناخت کا صرف ایک ہی حوالہ رہ گیا ہے۔ وہ ہے اندرون شہر دیواروں اور بڑے تاریخی دروازوں کے اندر کی حویلیاں‘ مسجدیں‘ شاہی قلعہ اور بے شمار دیگر مقامات۔ انگریزوں نے اپنا الگ شہر آباد کیا اور ہم اس کو بڑھاتے بڑھاتے بھارت کی سرحد کے قریب لے جا چکے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی عقل و فہم کی تو بات ہی کچھ اور ہے‘ مگر وہ بابو جنہوں نے قومی مفادات کا تحفظ کرنا تھا‘ اکثر بک گئے یا حرص و لالچ کا شکار ہو گئے۔ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے‘ مگر قوم ترقی کے نام پر بہت کچھ کھو بیٹھی۔ اس حوالے سے ہماری داستان عربوں سے کسی طور مختلف نہیں ہے۔