سن سن کر کان پک چکے ہیں‘ لیکن کپتان کی وہی تکرار ہے ''میں چھوڑوں گا نہیں‘ حزب اختلاف این آر او مانگتی ہے‘ نہیں ملے گا‘ احتساب ہو گا‘ بلکہ کڑا احتساب ہو گا اور سب پکڑے جائیں گے‘ اس کی معافی نہیں ہو گی‘‘۔ ان کی یہ باتیں سن کر ان کی کابینہ کے اراکین بھی وہی راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ شروع وزیر اطلاعات کرتے ہیں‘ باقی وزرا حسبِ طاقت اور حسبِ موقع وہی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب کرپشن کے مقدمات کا سامنا تو دو نامی گرامی سیاسی خاندانوں کے بڑوں کو ہے‘ لیکن میدان میں دفاع کے لئے مقرر کردہ چند تیکھی زبان والے حضرات اور خواتین کے علاوہ سیاسی رضا کار بھی اترتے ہیں۔ ان کی جانب سے ادا کئے جانے والے دفاعی کلمات بھی وہی پُرانے ہیں اور چالیس سال گزر جانے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دفاعی ہرکاروں کی زبان پر سب سے زیادہ ایک ہی بات ہوتی ہے اور وہ واویلا کرتے نظر آتے ہیں ''ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بڑے سیاسی خاندانوں نے ہی ایک دوسرے پر کرپشن اور قومی اثاثوں میں خورد برد کے الزامات لگائے اور ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کئے۔ ہمارے کچھ صحافی پوری تحقیق کر کے جب سارے حقائق پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے رکھتے ہیں‘ اور شواہد اس قدر ٹھوس ہوتے ہیں کہ چور کے بھاگنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا تو سیاسی ہرکارے فرمانے لگتے ہیں ''ہمارے خلاف عدالت میں کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا‘‘۔ موقع ہو یا نہ ہو‘ یہ بات بھی تسلسل کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ''ہمارا احتساب تو عوام کرتے ہیں‘‘۔ شاید کسی کو معلوم نہیں کہ عوام احتساب نہیں کر سکتے‘ وہ تو مجبوریوں میں جکڑے ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جہاں جہاں سیاسی شعور بیدار ہوا اکثر ہم نے بڑے بڑے بت گرتے دیکھے ہیں۔
میں جمہوریت کا نظریاتی طور پر قائل ہوں۔ اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جمہوری عمل آہستہ آہستہ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج سیاست کی سب میل‘ سب کثافت اور ساری گندگی دھو ڈالے گا اور سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہوتا ہے اور اس کا راستہ زیادہ دیر روکا نہیں جا سکتا۔ عمران خان صاحب خود اسی جمہوری عمل کی پیداوار ہیں؛ اگرچہ ان کے مخالفین یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کبھی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ و تیار نہیں ہوں گے‘ اس لئے کہ نئی حقیقتوں کے ظہور کو تسلیم کرنا‘ زوال پذیر سیاست کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا۔ ہم میں سے اکثر تو یہ بات بھی ماننے کو ابھی تک تیار نہیں ہوئے کہ وہ تبدیلیاں‘ جن کا کپتان نے وعدہ کر رکھا ہے‘ آئیں یا نہ آئیں‘ لیکن میرے نزدیک سیاسی تبدیلی آ چکی ہے۔ سیاست میں دو روایتی خاندان اب بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ عدالتوں میں‘ میڈیا میں اور عوام کی نظروں میں۔ نہ وہ ابھی مکمل طور پر ختم ہوئے ہیں‘ اور نہ ہی اس کی توقع رکھی جانی چاہئے۔ ابھی یونہی چلیں گے۔ ماضی ہونے میں وقت لگتا ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے میں موروثیت اور اس کے اخلاقی طور پر جائز ہونے کی سوچ پر مبنی تہیں گہری ہیں۔ سب کو یاد ہو گا‘ میاں محمد نواز شریف صاحب نے خود کس کا جانشیں ہونے کا اعلان کیا تھا‘ اور یہ اعلان دو دہائیوں تک ہوتا رہا۔ جنرل محمد ضیاالحق صاحب کے جنازے کا جلوس فیض آباد سے لے کر فیصل مسجد تک طویل اور پھیلا ہوا تھا۔ یقین نہیں آتا‘ مگر یہ تو سامنے کے حقائق میں سے ایک ہے کہ راستے میں ایک کھمبے پر ایک ایسے صاحب براجمان تھے جو جلوس کے شرکا کے جذبات کو گرمانے کے لئے جنرل صاحب کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔ وہ صاحب اس وقت میاں صاحب کے دست راست تھے‘ اور بعد میں جب محترم آصف علی زرداری کے ہاتھ لگے تو سونے سے جواہر میں تبدیل ہو گئے۔ قابلیت تھی‘ اب بھی ہو گی‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہیں ''حقیقت پسندی‘‘ کی سیاست کے سب اسباق ازبر ہیں۔ میاں صاحب جن کے سہارے سیاست میں آئے تھے‘ ضیاالحق صاحب کے گزر جانے کے بعد بھی انہیں ٹھنڈے سایوں میں رہنے میں عافیت محسوس کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے میدان میں واپس آنے سے قومی افق پر سیاسی گرمی اور تپش بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ آخر وراثت انہیں کے نام ٹھہری اور پھر اقتدار کے گھوڑے پہ سوار ہو کر انہوں نے پنجاب میں اور اس کے باہر بھی اپنا مقام بنا لیا۔ اب بھی ان کی مقبولیت موجود ہے‘ مگر دیمک زدہ۔
سیاسی وراثت کا دوسرا قصہ ٹیلی وژن سکرینوں‘ کیمروں اور لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں شروع ہوا۔ ایک لکھی لکھائی تحریر مل گئی تھی۔ کتنے ہم سادہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر بے حد با ادب کہ جو باتیں سیاسی بڑوں کی طرف سے آئیں‘ ان کو بلا چوں و چرا تسلیم اور قبول کریں۔ جمہوریت کا مزاج عوام کے مزاج سے مختلف نہیں ہوتا۔ سنتے آئے ہیں‘ جیسی رعایا‘ ویسے ہی بادشاہ۔ لیکن کبھی اگر رعایا کا مزاج تبدیل ہونے لگے تو سمجھ جائیں کہ ''بادشاہوں‘‘ کے لئے اچھے دن نہیں آ رہے۔ وطنِ عزیز کی سماجی حرکیات کا جائزہ لیں تو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں۔ شاید عام لوگ سماجی ساخت میں رد و بدل کو نہ دیکھ سکیں‘ نہ پرکھ سکیں‘ لیکن یہ ساری تبدیلیاں اس شعبے کے طالب علموں کی نگاہ میں ہیں۔ شہروں کی طرف ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے‘ آبادیاں منتقل ہو رہی ہیں‘ متوسط طبقہ تعداد میں ہر سال بڑھ رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ میڈیا نے عام آدمی کو بھی زبان عطا کر دی ہے۔ دیکھا نہیں‘ حکمران جو اس وقت مقتدر ہیں‘ اور وہ جو حزب اختلاف کہلاتے ہیں‘ فقط بیانیوں کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ بیانیہ تو ایک معتبر لفظ ہے کہ ربط‘ دلیل‘ شواہد اور منطق سے ترتیب پاتا ہے‘ کہنا یہ چاہئے کہ بس بے تکی باتوں کا شور ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ عوام کا ایک بہت بڑا حصہ سیاسی تماشوں کا رسیا ہو چکا ہے۔ لوگوں کو ہر شام سکرینوں پر تو تکار کے مناظر‘ الزامات اور جوابی الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ اگر مکے گھونسے بھی چلتے نظر آ جائیں تو تفریح کا سماں میسر آ جاتا ہے۔
پہلے عرض کیا کہ میرا جمہوریت پر یقین راسخ ہے اور میرے جمہوریت پر یقین کی بنیاد نظریۂ انسان ہے کہ بے شک آپ اسے ان پڑھ رکھیں‘ روزی کا بندوبست نہ ہونے دیں‘ اور کئی سماجی زنجیروں میں جکڑ دیں‘ وہ آزاد ہو کر ہی رہے گا۔ میں سوچ‘ فکر اور رائے کی آزادی کی بات کر رہا ہوں کہ ہر شام سیاسی تماشوں میں بیٹھے کردار اس کو متاثر نہ کر سکیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی تو ہیں جو ہر معاملے کا جائزہ غیر جانب داری سے لینے کی کوشش کرتے ہیں‘ اور وہ بھی جو کسی کے رعب اور لالچ میں نہیں آتے۔ شور تو بہت ہے‘ کان پھٹ رہے ہیں‘ لیکن شور مچانے والوں کی جھولی خالی ہی رہے گی۔ ابھی ان کے پاس اقتدار‘ دولت‘ نام‘ موروثیت اور دام لگائے گئے اور بے دام گماشتوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ کیوں نہ وہ ''بے گناہی‘‘ اور ''انتقام‘‘ کا طوفان برپا کریں۔ وہ ایسا تو کریں گے ہی کیونکہ یہ سیاسی بقا کی جنگ ہے جبکہ جنگ کے ساتھ ساتھ اب پاکستانی سیاست میں بھی ہر حربہ جائز ہو چکا ہے۔
کپتان اور اس کے حامیوں اور مصاحبوں کے لئے ان سارے معاملات میں بہت بڑا سبق ہے۔ اب اقتدار آپ کے ہاتھ میں ہے‘ وہی کریں جس کا وعدہ کیا تھا‘ نہ کر سکنے کی گنجائش بالکل نہیں۔ سیاسی تماشا اقتدار میں آنے سے پہلے جائز تھا‘ اب ہرگز نہیں۔ نئے آنے والوں کا تو امتحان اور اس کا معیار زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اب بھی وقت ہے‘ آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا۔ شاید یہ موقع پھر نہ ملے۔