دیگر کالمز
رؤف کلاسرا
"RBC" (space) message & send to 7575

مزید ہوائی باتیں

سیاست کے مضمون کے ابتدائی نصاب میں شامل ہر معروف اور مستند کتاب میں اس کے یعنی سیاست کے دل چسپ ہونے کے بارے میں تکرار کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اکثر کتابوں میں دیکھا گیا ہے کہ شروع کے صفحات میں بحث کا موضوع کچھ اس طرح کے معاملات ہوتے ہیں: سیاست کی رنگینی‘ کرداروں کا اپنے مفاد کی جنگ میں ہر ہتھیار کا استعمال جائز قرار دینا‘ دوغلا پن ذہانت کی علامت اور جھوٹ اگر سیاسی طور پر فائدہ مند ہے تو بولتے ہی جائو‘ یہاں تک کہ لوگ آپ پر یقین کے دروازے کھول دیں۔ آج کی سیاست میں کمال یہی ہے کہ آپ اپنی بات‘ چاہے وہ سچ ہے یا جھوٹ‘ کو پھیلانے اور منوانے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔ سیاست کے تپتے ریگستانوں اور خاردار میدانوں میں قدم رکھنا نرم دل‘ کمزور اعصاب کے حامل افراد کے لئے آسان نہیں ہے۔ زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو سیاست سے زیادہ کوئی اور پُر کشش سماجی موضوع پاکستان جیسے ملک میں ابھی سامنے نہیں آیا‘ نہ ہی آنے کی کوئی گنجائش رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا میں کیا باتیں لکھی‘ پھیلائی‘ دہرائی اور پڑھی جا رہی ہیں کہ خاکسار پُرانی طرز کا بندہ ہے‘ مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ بس ہر طرف ایک شور ہے‘ ایک ہنگامہ سا برپا محسوس ہوتا ہے‘ ایک جنگ کی کیفیت نظر آتی ہے۔ نفرت آمیز مواد کا تبادلہ‘ الزامات کی بھرمار اور دشمن کو زیر کرنے کے سب حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ سنا ہے ہماری سیاسی جماعتوں نے اس مقصد کے لئے پیشہ ور بھرتی کر رکھے ہیں۔ بڑی بڑی ٹیموں کی تشکیل کی جا چکی ہے‘ جن کا کام سیاسی حریفوں کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ بلا شبہ پہلے بھی یہ کام ہوتا تھا‘ مگر جدید ٹیکنالوجی نے نفرت کے پھیلائو کو بہت سادہ‘ آسان اور کم خرچ بنا دیا ہے۔
مہذب‘ پختہ اور اخلاقی روایات سے مربوط سیاست اور سیاسی رویے کم از کم نفرتوں کی آگ نہیں بھڑکاتے‘ بلکہ وہ تو برداشت اور رواداری کا ٹھندا پانی ڈال کر نفرتوں کے شعلوں کو بجھا دیتے ہیں۔ مخالفت سیاست کی بنیاد ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان منشور‘ نظریے‘ ملکی مسائل کو حل کرنے کی حکمت ہائے عملی مختلف نہ ہوں تو سیاست بے رنگ اور یکسانیت کا شکار ہو کر دم توڑ دیتی ہے۔ جہاں کہیں اور جب کبھی صرف ایک ہی جماعت کی اجارہ داری قائم کی گئی‘ وہاں سیاست زندہ نہ رہ سکی۔ گزشتہ صدی میں کئی ریاستوں میں ایسا ہوتا نظر آیا۔ کھلے میدان اور سامنے کی سیاست کو ایک خطرہ قرار دے کر اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ پھر اس کے نتائج بھی ان ممالک اور قوموں کو بھگتنا پڑے۔ سیاست‘ مخالفت‘ سیاسی جماعتوں کے درمیان مسابقت اور مقابلہ‘ آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ جب آزادیاں ملتی ہیں تو دھڑے‘ جماعتیں بنتی ہیں اور ان کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ آزادی نہ ہو تو سیاست کسی کام کی نہیں‘ لیکن آزادی صحیح معنوں میں تب ہی نصیب ہوتی ہے جب یہ قانون کے دائرے میں ہو۔ قانون سے باہر یہ آزادی نہیں اور قانون کی طاقت اگر دم توڑ جائے تو پھر جبر‘ دھونس‘ دھاندلی اور لوٹ مار کی سیاست جنم لیتی ہے۔ ہمارا اپنا وطنِ عزیز ہو یا کوئی اور ترقی پذیر ملک‘ لوٹ مار قانون اور اداروں کی طاقت کو تحلیل کر کے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
میرے نزدیک جمہوریت اداروں کو مضبوط بھی کرتی ہے اور کمزور بھی‘ یہ آزادیاں دیتی ہے اور آزادی کے نام پر خلفشار اور بد امنی بھی پیدا ہوتی ہے۔ فرق صرف جمہوری سیاست کو قانون کی بالا دستی کی گرفت میں رکھنے کا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر سچ اور جھوٹ کے معیار بدل جاتے ہیں۔ جمہوریت صرف نام کی رہ جاتی ہے۔ منظم لوٹ مار حکمران طبقات اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتے ہیں‘ اور معاشرے کی اخلاقی پستی گڑھے کی بھی نچلی سطحوں کو چھونے لگتی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ بس اپنے ارد گرد کا جائزہ لے لیجئے‘ ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔ 
ہمارے ہاں ''جمہوریت‘‘ بھی ہے‘ ''آزادیاں‘‘ بھی ہیں‘ لیکن ہم آزادیاں ایسے استعمال کرتے ہیں‘ جیسے آج ہی ملی ہوں‘ اور جمہوریت اور آزادیوں کے دوسرے رخ یعنی ذمہ داریوں کو یکسر بھول جاتے ہیں‘ کیونکہ ہم ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور فرض ادا کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ آزادیوں کا ہمارا اظہار اکثر انارکی پھیلانے کا موجب بنا ہے۔ دکھ سے کہتا ہوں کہ مذہب اور سیاست کے نام پر سیاست بھی کی جا رہی ہے اور نفرتیں بھی ابھاری جا رہی ہیں۔ یہ کون سی آزادی ہے کہ معاشرتی اور قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کھلی چھٹی ہو۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اور حکمران کہتے تو یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حاکمیت کمزور ہے‘ مگر اس کی بحالی اور اس کی ہمہ گیر گرفت کے لئے وہ کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ایسا کرنا وہ اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ قانون طاقت ور ہو گیا تو جو کچھ وہ اس ملک کے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ یا اب کر رہے ہیں‘ اس کی زد میں انہیں لا ڈالے گا۔
میرا ذاتی وزن تھوڑا سہی مگر جو کچھ بھی ہے‘ جمہوریت کے پلڑے میں ہے‘ ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ جمہوریت کے علاوہ پاکستان یا کسی اور ملک کے لئے کوئی دوسرا قابلِ عمل‘ دیرپا اور آزادیوں سے جڑا متبادل نہیں ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ آزادیوں کے بغیر انسان کی انسانیت گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے۔ کئی غیر جمہوری ملکوں میں آزادی کو ترقی کی ضد قرار دیا جاتا ہے‘ مگر یہ بحث غیر مدلل ہے۔ ملک میں جو بھی جمہوریت ہے‘ اس کو بڑھنے دیں اور اس کی آبیاری رواداری‘ برداشت اور ایک دوسرے کی جمہوری جائزیت کو تسلیم کر کے کریں۔ اپنے سیاسی رہنمائوں سے گلہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جو زبان اور لہجہ عرصہ دراز سے استعمال کر رہے ہیں‘ اس سے نفرتوں اور دوریوں میں کمی نہیں‘ ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ سیاست ذات اور شخصیتوں کے درمیان دشمنی کا نہیں‘ اصولی اختلاف کا نام ہے۔ اور یہ کہاں ہوا ہے کہ ہر منتخب حکومت کو ناجائز قرار دے کر اس کو گرانے کی تحریک چلائی جائے اور جھانسہ یہ دیا جائے کہ آپ یہ سب کچھ ''جمہوریت‘‘ کی بحالی اور اسے مضبوط کرنے کے لئے کر رہے ہیں؟ لیکن ہمارے ہاں یہ ہو رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے‘ چاہے اس سے سیاسی عدم استحکام ہی کیوں نہ پیدا ہوتا رہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے جب بھی ایسا ہوا جمہوریت کے پودے کے پتے زرد ہی پڑ گئے بلکہ یہ پودا اتنا مرجھا گیا کہ اسے جڑ سے اکھاڑ کر ردی کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔
ماضی میں جو کچھ ہو چکا‘ اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے اگر یہ تہیہ کر لیا جائے کہ اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی بقا اور ترقی جمہوریت‘ سیاسی استحکام اور باہمی رواداری میں ہے۔ اس کے برعکس سیاسی جنگوں کے کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں‘ اور مزید نئے کھولنے کی منصوبہ بندی ہے۔ آزادی ہے! کون روک سکتا ہے۔ سیاست ایک تماشا‘ ایک ناٹک بن چکی ہے اور عوام تماش بین۔ یاد رہے کہ جمہوریت کا فلسفہ اور اس کی جدوجہد کی بنیاد معاشرے میں استحکام‘ اقتدار کی جائزیت اور پُرامن انتقالِ اقتدار پر ہے۔ ہم ہر دفعہ ان اصولوں کی جڑیں کاٹتے ہیں اور اس وہم میں رہتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو گی۔ تین دفعہ انتقالِ اقتدار تین مختلف سیاسی دھڑوں میں ہو چکا ہے۔ چوتھی اور پانچویں مرتبہ ہوا تو یہ کئی بار اکھاڑا ہوا پودا تناور سایہ دار درخت ہو گا‘ جس کی ٹھنڈی چھائوں میں سب کو سکون میسر آ سکتا ہے۔ خیر ملک کا جو سیاسی ماحول بن رہا ہے‘ اس میں یہ باتیں ہوائی معلوم ہوتی ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں