سیاست اور سیاسی میدانوں میں خواہشات کے گھوڑوں پہ سوار مہربانوں کے انداز اکثر جگہوں پر نرالے دیکھے ہیں۔ یہ سچائیوں کی بات کرتے ہیں مگر حقیقتوں سے یکسر انحراف۔ جمہوریت کی ہوا کے زور سے ان کی کشتیوں کے بادبان طاقت پکڑتے ہیں‘ مگر جمہوریت کی قدرومنزلت صرف حصولِ اقتدار تک محدود۔ ہمارے ہاں دہائیوں تک اقتدار میں رہ کر اپنی مرضی و منشا کے مطابق حکومتیں چلانے والے نہ تو جمہوری اقدار کی پاس داری کر سکے اور نہ ہی ادارے مضبوط کئے۔ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت قائم ہوئی اور اقربا پروری‘ لوٹ مار اور ہر مخالف کے ساتھ پنجہ آزمائی کی جاتی رہی۔ سیاسی جماعتوں پر خاندانی اجارہ داریاں کون نہیں جانتا؟ ہمارے ایسے حکمران جب کمزور سیاسی روایات‘ اداروں کی بدحالی اور جمہوریت کی پامالی کی باتیں کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام کے حلیف نہیں‘ حریف ہیں۔ کسی بھی ملک کا نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی یا کسی نوعیت کی شخصی آمریت ہو‘ اس کی بقا‘ اس کے نکھار اور کارکردگی کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہوتا ہے جو اسے چلاتے ہیں۔ کوئی بھی نظام اپنے طور پر کچھ نہیں ہوتا‘ وہ وہی کچھ ہوتا ہے‘ جیسا ہم اسے بناتے ہیں۔ ہمارا آئین ہو یا کسی اور کمزور جمہوری ملک کا‘ پڑھیں تو فلسفۂ جمہور‘ عظیم انسانی اصولوں اور سیاسی حکمت کا حسین مرقّع معلوم ہو گا۔ بات تو عمل کی ہوتی ہے کہ معاشروں کے پاس مذاہب‘ فلسفے‘ اخلاقیات اور مفکرین کی کہیں کمی دکھائی نہیں دیتی۔ کمی تو ان پر عمل پیرا ہونے کی ہے۔ صدق دل سے سچائیوں کو تسلیم کرنے کی عادت نہیں‘ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ جیسے تضادات ہیں۔ حرص و ہوا کے دھندے میں سب فلسفوں کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ اندر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو اور جھوٹ کے دبیز پردے پڑے ہوں تو سچ کی روشنی بھلا کتنا بھی پُر نور ہو‘ تاریکی کو شاید نہ مٹا سکے۔
تاریخ تو اپنے طور پر گواہ رہتی ہے‘ مگر ہمارے نام نہاد رہنمائوں کو نہ فرصت ہے‘ نہ وہ علم کی لذت سے آشنا‘ اور نہ ہی سچائی کی روشنی میں اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے میں کوئی دلچسپی۔ تاریخ کی بات اس لئے کی کہ انسانی تجربے سے بڑھ کر کوئی بڑا استاد اور معلم نہیں بن سکتا۔ وہ جو دانش سے بہرہ مند ہوتے ہیں‘ دوسروں کی غلطیوں‘ کامیابیوں کے سفر‘ ترقی‘ عروج اور زوال کے واقعات سے اپنا راستہ بناتے ہیں۔ میں تاریخ کو وسیع تر انداز میں دیکھتا ہوں‘ جس سے مراد فقط تاریخ پر لکھی کتابیں نہیں۔ اس میں زمانوں کا ادب‘ فنون‘ فلسفے اور بڑے بڑے کرداروں کی سرگزشتیں بھی ہیں۔ علم کا کوئی ورق نہیں جہاں آپ تاریخ کی چھاپ کو ماند پائیں‘ یہاں تک کہ صنعتی ترقی‘ سائنسی اور سماجی ارتقا‘ سب ایک دوسرے سے منسلک اور باہمی سہارا رہے ہیں۔ ریاستی نظام ہو یا سماجی ترقی‘ دونوں دیگر عوامل کے ساتھ مل کر چلتے ہیں‘ علیحدہ کسی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
اس سے پہلے کہ سچائی اور جمہوریت کے خلاف سرگرم جنگجوئوں کے بارے میں کچھ کہوں‘ ایک بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم آج کے دور میں ایک عالمگیر معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے‘ وہ ہماری آنکھ سے اوجھل نہیں‘ اور جو کچھ ہم اپنے ساتھ یا ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں‘ وہ کوئی راز نہیں۔ برقی دور میں سب کچھ برق رفتاری سے تابناک سورج کی شعائوں کی طرح دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاتا ہے۔ اب ہر جگہ سیاست کے بازاروں میں لگے بکتے مال‘ بیوپاریوں‘ آڑھتیوں اور سیاسی منڈیوں کو چلانے والوں کا درشن دور گھر بیٹھے کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عکس ایک نہیں‘ کئی ابھرتے ہیں‘ راوی ایک نہیں سینکڑوں ہیں اور چہروں کے رخ پر پڑنے والی روشنی کا ایک منبع نہیں‘ ہزاروں ہیں۔ ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں اور دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ اس کے باوجود کوئی احتیاط کا دامن چھوڑ دے‘ اور تماشا بنانے کی ضد میں خود تماشا بن جائے تو ہمیں افسوس کرنے کے بجائے ذہنی افتاد اور رویّوں کو پرکھنا چاہئے‘ کہ آخر سچائیوں کا ادراک کن حالات اور کن کرداروں میں دشوار‘ بلکہ ناممکن سا بن جاتا ہے۔ خواہشات کے غلام بھلا کیسے آزاد ہو سکتے ہیں‘ جب غلبہ اس قدر ہوکہ ہر سچائی جھوٹ نظر آئے۔ ہمارا مشاہدہ اور علم تو بہت محدود ہے مگر تاریخ میں وہ لوگ‘ اور ہمارے ارد گرد بھی آسودہ دیکھے گئے ہیں‘ جو سچائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھ لیتے ہیں۔ وہ نہ خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی منافقت اور دوغلے پن کا۔
بات تو دراصل اپنے حکمرانوں‘ حال اور ماضی کے‘ اور گیارہ جماعتی پاکستان جمہوری تحریک کی ''سچائیوں‘‘ کی کرنا مقصود تھا‘ مگر معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہر شعبے میں صداقت اور امانت کے لئے پنپنے کی گنجائش نہیں رہی۔ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بگاڑ ہر جگہ ہے تو پھر سیاسی اکابرین کے بارے میں باتیں ہم کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ ان کے پاس طاقت ہے‘ طاقت رہی ہے اور وہی طاقت کے میدان کے کھلاڑی ہیں۔ معاشرے کے رجحان غالب طبقات کی افتاد سے متعین ہوتے ہیں۔ دیکھا نہیں کہ امریکی صدر کے بیان نے‘ جو تقاریر وہ گزشتہ چار سال سے کر رہے ہیں اور جو بیانیہ ان کے حوالے سے ان کی ذات کی عکاسی کرتا ہے‘ کس قدر امریکی معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے ہفتوں‘ مہینوں اور برسوں میں وسیع پیمانے پر تشدد کی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں‘ بلوے‘ گھیرائو جلائو‘ اور نسلی جنگ کو بھی خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا۔
ہم امریکہ کی نسبت اور بہت سے معاشروں کے مقابلے میں زیادہ تقسیم ہو چکے ہیں۔ فرقہ واریت‘ لسانی تعصب اور انتہا پسندی کے بیج بھی تو ہمارے حکمرانوں نے بوئے ہیں۔ سیاسی تحریکوں نے ماضی میں قتل و غارت کا روپ دھارا‘ یہاں تک کہ ہماری جامعات میں سیاسی اور نظریاتی تعصب کی بنیاد پر نوجوانوں نے ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کیا۔ آنکھوں کے سامنے بہت سے المناک واقعات گھومتے رہتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی کوئی سیاسی تحریک ایسی نہ تھی‘ جس کا انجام کسی جانب سے تشدد پر نہ ہوا ہو۔ امن پسندی‘ بقائے باہمی اور تکثیریت کی روایات کمزور رہی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو درندگی اور انتہا پسندی در آتی ہے۔ معاشرہ اور ریاست میرے نزدیک کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ پُر تشدد گروہ‘ کرپٹ حکمران اور کالے دھن کا انبار لگانے والے طاقتور سے طاقتور ہوتے چلے گئے۔ قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی روایات اور ادارے کمزور ہوتے ہوتے اب لنگڑانے لگے ہیں۔ عمران خان صاحب کا یہی تو دو دہائیوں سے بیانیہ تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوگ بات سمجھ گئے‘ ساتھ دیا‘ اور کپتان ایک نجات دہندہ کے طور پر سیاسی میدان میں ابھرا‘ اور موروثیوں اور مجاوروں کی دوڑیں لگوا دیں۔ میرے نزدیک پاکستانی سیاست کا اس وقت بنیادی تضاد نظام کو درست کرنے اور ماضی میں اس کو بگاڑنے والوں کے درمیان میں ہے۔ حزبِ اختلاف میں موجود گیارہ جماعتیں دیکھیں راولپنڈی میں چائے کی دعوت قبول کریں گی یا اسلام آباد کی سڑکوں پر دندناتی پھریں گی‘ مگر زبان‘ لہجہ اور مکالمہ ایسا ہے کہ سن کر خوف آنے لگتا ہے‘ خدشات بڑھ جاتے ہیں اور اچھے وقتوں کے امکانات کے دیے روشنی کھوتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ کی سچائیاں کچھ اور ہیں‘ اور ہمارے بھٹکے راستوں پر چلتے رہنے کا درس بھی کچھ اور کہتا ہے۔ سچائیاں گھڑی نہیں جاتیں‘ زہریلی‘ نفرت انگیز گفتگو خون تو گرم کر دیتی ہے‘ مگر حقیقت نہیں بن سکتی۔ چیخ کر بولنے سے بیان میں وزن نہیں پڑتا۔ قریبوں کی بات تو پجاریوں جیسی ہوتی ہے‘ دور سے دیکھنے والے اہلِ نظر سے کیا مخفی رہ سکتا ہے؟ سنا ہے محاذ والوں نے پرسوں کیا بات کہہ دی‘ ''جہاد‘‘ جمہوری حکومت کے خلاف ''جہاد‘‘ کی دعوت‘ پھر کون سے آئین‘ کون سی جمہوریت اور کون سی سچائی کی بات کریں؟