دریائوں اور ندی نالوں کی سرزمین میں گڑ اور چاول پتا نہیں کب سے دسترخوانوں پہ سجائے جا رہے ہیں۔ ہم دیسی لوگوں نے گڑ اور شکر کے زمانے میں آنکھیں کھولی تھیں۔ ہمارے گھروں میں زردہ‘ حلوہ اور عید کے موقع پر سفید سویّاں پکتیں تو گڑ کو پیس کر یا کہیں سے شکر دستیاب ہوتی تو مٹھاس اور چاشنی پیدا کرتے۔ کبھی کبھار چائے کی دیگچی ابلتی تو اس میں گڑ کی ڈلی ڈالتے۔ ان ذائقوں کی خوشبو حسین یادوں کی طرح آج کی تنہائیوں میں بہار کی سی خوشبو کی طرح چھائی رہتی ہے۔ ہم نے کچھ پرانی روایات اور عادات کو کبھی چھوڑا نہیں۔ کیلے فورنیا میں تعلیمی سفر اکیلے ہی کیا تھا۔ مجبوریاں تھیں۔ آٹھ ماہ بعد بیگم بھی آ گئیں تو اپنے مختصر سامان میں دو چیزیں ساتھ لائیں‘ گڑ اور لسی بنانے والی مدھانی۔ میں نے انہیں کبھی اس زحمت کی درخواست نہیں کی تھی مگر انہوں نے سوچا ہو گا کہ دیارِ غیر میں گڑ اور لسی کے بغیر میرا گزارہ کیسے ہوتا ہو گا۔ دل لگی کہیے یا چھیڑ چھاڑ‘ کبھی کہہ دیتا ہوں‘ یاد ہے‘ پاکستان سے میرے لیے کیا تحفہ لائی تھیں۔ بیالیس سال بعد بھی اس گڑ کا ذائقہ نہیں بھولا‘ اس کی مٹھاس ہی کچھ اور تھی۔ آج بھی ہمارا ٹھکانہ کہیں ہو‘ چونکہ ٹک کر بیٹھنے والے نہیں‘ گڑ کا ڈبہ سلیقے سے ہم باورچی خانے میں رکھ دیتے ہیں۔ دل کو تسلی رہتی ہے شرینیوں کی طرف ہم مائل نہیں ہوں گے۔
ہمارے گھروں میں ہماری مائیں رزق ضائع نہیں ہونے دیتی تھیں۔ شام کے وقت روٹیوں کے ٹکڑے بچ جاتے تو انہیں سکھا کر اکٹھا کر لیتیں۔ کسی صبح یا شام کو انہیں باریک کرکے گڑ اور تازہ مکھن کے ساتھ حلوہ بناتیں۔ یہ حلوہ آج بھی اس درویش کا پسندیدہ ہے۔ جب خود تیار کرتا ہوں تو مزہ چوگنا بڑھ جاتا ہے۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب چاول‘ روٹیاں‘ سبزیاں اور سالن گھروں کے علاوہ ریستورانوں میں ضائع ہوتا دیکھتے ہیں۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ کتنی محنت اور کتنی سرمایہ کاری سے ہم اجناس اور دوسری فصلیں پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت تو ہے؛ تاہم کھانے پینے کی کمی نہیں‘ سب کو ملتا ہے‘ مگر ضائع اتنا ہو جاتا ہے کہ جاپانیوں اور انگریزوں کو پتا چل جائے تو آپ کی ساری امداد بند کر دیں۔ چینی‘ جسے ہم سفید شکر کہتے ہیں‘ کا استعمال دیکھ لیں۔ کاش ہم یہ ترقی دوسرے ملکوں کے لیے رکھ چھوڑتے اور گڑ کی صنعت پر ہی گزارہ کرتے۔
ہمارے دیہاتی دوستوں کو بھلا دور سے گڑ کے پکنے کی خوشبو کبھی بھول سکتی ہے؟ اب بھی ویسا ہی‘ جیسا شروع میں کبھی دیکھا تھا۔ گنے کے کھیت کے قریب بیلنا نصب کیا جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں ایک بیل بیلنے کو گھماتا تھا۔ ساتھ ایک آدمی ٹین کے ڈبے میں رس بھرتا اور قریب ہی ابلتے ہوئے لوہے کے کڑاہ میں ڈالتا رہتا۔ کوسوں دور تک خوشبو بھری ہوا گردش کرتی۔ آج بھی ویسا ہی ہے‘ مگر بیل کی جگہ تیل سے چلنے والے انجن نے لے لی ہے۔ موقع ملے تو گڑ بنتے ضرور دیکھیں‘ اس سے پہلے کہ ہماری بے لگام جدت پسندی یہ سب ختم کر دے۔ یہ درویش دو مرتبہ گڑ تیار کرنے کے شوق میں گرفتار ہوا‘ مگر دیگر پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث جاری نہ رکھ سکا۔ کبھی درس و تدریس سے فراغت ملی تو بیلنے والے گڑ کا کارخانہ لگا کر دولت نہیں تو مسرت ضرور حاصل کریں گے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارا گڑ کی طرف آج دھیان کیوں چلا گیا۔ یہ خیال ایسے تو نہیں آتے۔ ایک زمانے میں بھارت بہت جایا کرتا تھا‘ اور اکثر میرے میزبان مجھے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ٹھہرانے کا بندوبست کرتے۔ یہ دہلی کے دانشوروں‘ صحافیوں‘ فنکاروں اور سیاسیوں کے کئی ٹھکانوں میں سے ایک ہے۔ خورونوش کے علاوہ وہاں سیمینارز‘ کانفرنسیں اور مختلف انجمنوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ یہ لودھی گارڈنز کے ایک کنارے پر ہے۔ لودھی گارڈنز نئی دہلی کے وسط میں قدیم باغوں میں سے ایک ہے۔ پُرانے‘ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے گھنے درختوں کے درمیان لودھی بادشاہوں کے بوسیدہ‘ گرتے ہوئے ،مقبرے ہیں۔ اس وسیع باغ میں سیر کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ صبح سویرے جہاں ہر عمر اور نوع کے لوگ چلتے‘ دوڑیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ سکھ بھائیوں میں سے کچھ لوگ لنگر لگاتے ہوئے بھی دیکھے۔ لنگر میں اکثر سوجی کا حلوہ اور پوریاں ہوتیں مگر ایک دو مرتبہ گڑ والے چاول بھی کیلے کے پتوں پر انہیں آتے جاتے لوگوں میں تقسیم کرتے دیکھا۔ جب موقع ملتا ہمارا ناشتہ گڑ والے چاول سے شروع ہوتا۔ وہی خوشبو‘ وہی ذائقہ اور وہی لوازمات۔ دہلی ہو یا لاہور‘ گڑ والے چاول گڑ والے ہی ہوتے ہیں۔
لاہور میں ہمارا مرکز و محور ہماری جامعہ مسجد ہی ہے۔ باہر نکلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی‘ سوائے پُرانے لاہور میں چھٹی کے دن پیدل چلنے اور دن گزارنے کے۔ ہماری سیر اور ورزش تو صبح طلوع آفتاب سے پہلے شروع ہوتی ہے‘ مگر شام کو بھی کچھ پھیرے دوستوں کے ساتھ لگانا کئی برسوں سے روزمرہ کا معمول ہے۔ اس چلتے‘ بولتے‘ ہنستے‘ ہنساتے گروہِ پروفیسراں کے روح رواں ڈاکٹر مشتاق خان ہیں۔ جب کبھی ہم قائدِ اعظم یونیورسٹی میں استاد تھے‘ تو یہ وہاں طالب علم ہوتے تھے‘ مگر ہماری استادی کی گرفت میں نہ آئے کہ وہ معیشت کے شعبے میں تھے۔ پاکستان کی زراعت پر مہارت‘ فقط امریکی تعلیم سے نہیں‘ خاندانی زمیندار ہیں اور اپنی محنت کی کمائی سے ہی انہوں نے زمین میں سرمایہ کاری کی ہے۔ زراعت کے شعبے میں انہیں اپنا استاد مانتا ہوں۔ ان کی رہنمائی‘ مشورے اور تجربے کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں‘ مگر جب بھی میں اپنی شاگردی کا اعتراف ان کی موجودگی میں اس چلتے پھرتے گروہ کے سامنے کرتا ہوں تو وہ خواہ مخواہ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ مشتاق صاحب بہت ہی اعلیٰ ظرف انسان ہیں۔ کمال ان کا یہ ہے کہ ادھر خواہش کریں‘ اور اگلے روز جو چاہیں کھانے پینے کیلئے حاضر کر دیا جائے گا‘ بلکہ خود ہی دھراتے رہتے ہیں۔ ان کے شورکوٹ کے تالابوں سے نکلی تازہ مچھلی‘ سرسوں کا ساگ‘ مکئی کی روٹی‘ گھر میں بنے دہی کی لسی یا گڑ کے چاول۔ چند دن پہلے سردی‘ بارش اور بھیگی شام میں گڑ والے تازہ تازہ پکے چاولوں کا دیگچہ ورزش گاہ کے بینچوں پہ رکھ کر دور کرسی پر بیٹھ گئے۔ خود نہیں کھاتے کہ انہیں طبی طور پر منع ہے‘ مگر وہ ہماری چھوٹی بڑی خواہشوں کو فریضہ سمجھ کر پورا کرتے رہتے ہیں۔ جونہی ڈھکنا اٹھایا‘ خوشبودار بھاپ نے مدہم روشنی میں سارے ماحول کو مسحور کر دیا۔ ہم میں سے دو تین تو ایسے مدہوش ہوئے کہ تین پیالے کھانے کے بعد انہیں ہوش آیا۔ اگلے دو تین دن گڑ والے چاولوں کی باتیں ہوتی رہیں تو کسی نے فرمائش کر ڈالی کہ دوبارہ کب نصیب ہوں گے؟ مشتاق صاحب اگلے ہی روز دیگچے اور گھر میں جمائے گئے دہی کے ساتھ اسی جگہ میزبانی میں مصروف ہو گئے۔ ہم کبھی اس بحث میں نہیں الجھے کہ گڑ والے چاول دہی کے ساتھ کھائے جائیں یا بغیر دہی کے۔ گوجرانوالہ والے تو دہی کے بغیر گڑ والے چاولوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ ہم نظریاتی طور پر ہر قسم کی ملاوٹ کے خلاف رہے ہیں۔
اردو کا محاورہ ہے کہ شکر خورے‘ معاف کرنا‘ گڑ خورے کو خدا گڑ دے ہی دیتا ہے۔ ابھی میں نے تیسرا پیالہ ختم کیا ہی تھا کہ مردان سے میرے ایک سابق طالب علم نجیب اللہ کا پیغام آیا ''ہم نے اپنے فارم پر 'مسالے دار‘ گڑ تیار کیا ہے‘ میری خواہش ہے کہ آپ کو بھی بھیجوں‘‘۔ اس کی خواہش کی تکمیل میں میرے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ دو دن بعد 'مسالے دار‘ گڑ کی ٹوکری انتظار کر رہی تھی۔ جب تک جان ہے اور جہان ہے ہماری عیاشیاں جاری رہیں گی‘ کوئی بھی سیاسی‘ نظریاتی اور لٹھ بردار ان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکے گا اور ہم یہ پُرآسائش زندگی گزارنے کی دعوت بھی دیتے رہیں گے۔