آخر فیصلہ آ گیا‘ مگر بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے۔ حمزہ شہباز شریف کا معاملہ لٹک گیا ہے اور شیروانی کو بھی کھونٹی پہ لٹکانا ہو گا۔ آئین‘ قانون اور پارلیمانی نظام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق چلانے کی خواہش کہیں نظر نہیں آتی۔ عدم استحکام‘ معاف کرنا کچھ عرصے سے مجھ سے یہ غلطی مسلسل ہو رہی ہے یقین جانیں لکھنا تو عدم اعتماد ہوتا ہے مگر لکھا عدم استحکام جاتا ہے‘ تو عدم اعتماد کا غوغا اٹھا تو اچھا کیا تحریکِ انصاف والوں نے کہ عدالتِ عظمیٰ سے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اوروضاحت کرنے کی درخواست کردی۔ جب یہ بات چلی تھی تو ہمارا موقف یہ تھا کہ وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ کے چنائو‘ اعتماد اور عدم اعتماد کی تحریکوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکینِ اسمبلی اپنی جماعتی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ہفتوں‘ مہینوں تک ہر فورم پر اس آرٹیکل کا جائزہ لیا جاتا رہا اور ہمارے ہر نوع کے ماہرین اپنی اپنی آرا سے ہمیں مستفیض کرتے رہے۔ اراکین اسمبلی کی آزادیٔ رائے کی دلیل کا شورتو زیادہ تھا‘ مگر پارلیمانی نظام کے استحکام‘ اس کی تاریخ اور فعال حکومت کی تشکیل کے تقاضوں سے متصادم نظر آتی تھی۔ گزشتہ ہفتے جب ریفرنس پر عدالتی کارروائی آخری مراحل میں تھی‘ تو ایک فاضل جج صاحب نے ایک مختصر جملے میں سب بات کہہ دی کہ اس آرٹیکل کا مقصد کسی سیاسی جماعت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے سے زیادہ نظام کو چلانا ہے۔ خود سوچیں‘ اگر لوٹا بازی کو آئینی تحفظ مل جائے تو کسی بھی جماعت کی حکومت کے لیے کیسے ممکن ہوگا کہ وہ اپنے منشور اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے مشکل فیصلے کرسکے۔ پھر تو اراکینِ اسمبلی جتھے بنا کر حکومت کو بلیک میل کریں گے۔ ہمارے ہاں تو ریاستی سرپرستی کے زور پہ حکومتیں چلتی ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھیں کہ وزارتیں دیں‘ عہدے‘ پارلیمانی اوراس کے باہر بھی۔ ''ترقیاتی فنڈز‘‘ عنایت ہوں کہ سیاسی سرمایہ کاری میں کام آتے ہیں‘ اور اپنے اپنے اضلاع میں حکومتی انتظامیہ کو ان کے اشاروں پر ناچنے کے 'سرکاری احکامات‘ جاری کئے جائیں۔ جن کے خلاف اربوں‘ کھربوں کے کرپشن کے مقدمات ہیں‘ ہر نوع کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں‘ اور الزامات کی تحقیقات جاری ہیں‘ وہ سب ختم ہوں۔ عمران خان سے لوٹا باز گروہوں کا اور کیا گلہ تھا؟ خصوصاً ہمارے چینی بنانے اور بیچنے والے اور دوسرے زمینوں کے کاروبار کرنے والوں کا۔ واویلا کرنے اور ''انتقام انتقام‘‘ کا شور مچانے کی پُرانی روایت ہے۔ اب تو گننا بھی چھوڑ دیا ہے کہ موجودہ بندوبستی حکومت میںکابینہ کے کتنے اراکین ہیں‘ جن کے بارے میں لوٹ کھسوٹ کی لمبی داستانیں ہیں۔ آزادیٔ رائے قوانین بنانے‘ پالیسیاں تشکیل دینے اور حکومتی لائحہ عمل پر بحث کے لیے ضروری ہے‘ اور ان کا احترام واجب‘ مگر حکومت سازی اور اس کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اراکین جماعتی فیصلے کے ساتھ رہیں۔ ان کے لیے جمہوری راستہ بھی موجود ہے کہ اگر حکومت سے نظریاتی یا سیاسی اختلافات ہیں تو جس جماعت کے ٹکٹ پر آپ منتخب ہوئے‘ اس سے استعفیٰ دیں‘ اور جس جماعت سے وابستہ ہونا چاہیں‘ اس کا جھنڈا اٹھا کر دوبارہ منتخب ہو کر واپس ایوان میں آ سکتے ہیں تو آئیں‘ ورنہ پچھلی کمائی پر ہی گزارہ کریں‘ بلکہ عیش کریں۔
امریکہ کا آئین پارلیمانی نہیں‘ صدارتی ہے‘ اور اس لحاظ سے مقننہ کے دونوں ایوانوں میں سیاسی جماعتوں کے اراکین پر کوئی پابندی نہیںکہ وہ پارٹی کا ہر موقع پر ساتھ دیں‘ لیکن روایت یہ بن چکی ہے کہ ایوان نمائندگان کے سپیکرکو منتخب کرنے کیلئے ہر جماعت کے اراکین اس کے نامزد امیدوارکے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس کیلئے کوئی قومی قانون نہیں‘ ہر جماعت ایسے فیصلے خود کرتی ہے۔ سینیٹ میں اکثریتی اور اقلیتی لیڈر کا کوئی انتخاب نہیں ہوتا‘ پارٹی خود فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں چھانگا مانگا‘ مری کی خریدوفروخت کی منڈیاں لگتی رہیں‘ اور ہماری دو خاندانی جماعتیں دو عشروں تک ایک دوسرے کو پچھاڑنے‘ گرانے اور اپنی حکومت بنانے کیلئے بولیاں لگاتی رہیں۔ آخر اپنی ہی کارستانیوں سے تنگ آ کر دو مرتبہ آئین میں ترامیم کیں کہ حکومت بنانے‘ اس کے خلاف عدم اعتماد لانے‘ اور بجٹ کو پاس کرانے میں ہر رکن اپنی پارٹی کی طرف سے دی گئی ہدایات کا پابند ہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے جس طرح آئین کی تزئینِ نو کی گئی‘ تو سب جماعتوں نے اتفاق رائے سے آرٹیکل تریسٹھ اے کو بھی مزید جاندار بنا لیا۔ مفاد پرستی کے جو مظاہر ہم نے ملک کی سیاسی تاریخ میں دیکھے ہیں‘ موجودہ اکابرین نے سب ریکارڈ توڑ کر انہیں دور سمندروں میں بہا دیا ہے۔ کیا کیا قانونی اور آئینی موشگافیاں‘ اراکین کے ضمیر اور آزادی کی باتیں کی گئیں‘ جو سراسر خود کی گئی ترمیم کے خلاف تھیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو گرانے کیلئے‘ اور تو اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی عدالتِ عظمیٰ میں پہنچ گئے‘ اس استدعا کے ساتھ کہ لوٹا اراکین کا‘ اپنی پارٹی سے منحرف ہونا‘ ان کا آئینی حق ہے۔ دل دکھتا ہے کہ ہم کن زمانوں میں اور کن لوگوں کے سیاسی اور سماجی غلبے میں زندگیاں گزارنے پہ مجبور ہیں۔
عدالتِ میں جب دلائل دیئے جا رہے تھے تو بہت کچھ امریکی تاریخ‘ آئین اور سیاست کے حوالے ذہن میں گردش کرنے لگا۔ چونکہ امریکی سیاسی فلسفے‘ سیاست اور حکومت ایک عرصے سے پڑھا رہا ہوں‘ تو یہ میرے لیے ایک فطری حوالہ ہے۔ امریکی آئین کوئی دو سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔ اب دنیا بدل چکی ہے‘ اور آئین میں تبدیلی کرنے کا عمل اتنا مشکل اور پیچیدہ ہے کہ اب تک صرف چھبیس ترامیم ہو سکی ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف شروع ہی میں کرنا پڑی تھیںکہ شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو بہتر تحفظ مل سکے۔ اس لیے آئینی تشریح کیلئے اکثر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ آئین کی تشریح کی کئی تھیوریز ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آئین بنانے والوں کی منشا اورارادہ کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نکتے پر تحریکِ انصاف کے وکلا نے کتنا زور دیا‘ مگر اٹھارہویں ترمیم تو کل کی بات ہے۔ سب دستاویزات‘ کارروائی کی تفصیل اور بحثیں اخباروں کے صفحات پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد ضمیر جگانے کی جادوگری تھی؟ کس کھلی مسکراہٹوں اور سیدھے منہ ہمارے جمہوری سیاست باز ''راست بازی‘‘ سے کام لیتے ہیں۔
نام پہ تو رشک آتا ہے‘ ''پاکستان جمہوری تحریک‘‘ دعا ہے کہ اس کے پیشِ نظر پاکستان ہی ہو اور اس کا اقتدارکا راستہ جمہوری ہی رہے۔ مرکز میں تو تیرہ جماعتی اکٹھ کو ایک ووٹ کی برتری ہے اور جب تک ابھرتے ہوئے عوامی طوفان کی زد میں آکر یہ اتحادی پل امدٹے سیلاب کی نذر نہیں ہو جاتے‘ ان کا آئینی حق قائم ہے‘ مگر جو تباہی ملک کی معیشت‘ سیاسی استحکام اور معاشرتی ہم آہنگی کی ہمارے تین بڑے اکابرین‘ ڈیروی‘ نوابشاہی اوررائے ونڈی نے کردی ہے وہ صرف اندرونی اور بیرونی ''دوست‘‘ ہی کر سکتے ہیں۔ ان سب حضرات کا احترام کرتے ہیں اور بندوبستیوں کا بھی‘ مگر جہاں تک وطنِ عزیز اور یہاں کے عوام کی‘ ان کی فکرمندی اور جمہوریت و معیشت کو بچانے کی باتیں ہیں‘ دل ان کو کیسے مانے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں‘ یہ ان کے ماضی کی کارکردگی اور آج کی ''عقل مندیوں‘‘ کا نتیجہ ہے۔ آپ کو ثبوت چاہئے کہ ان کے زر و دولت کے خزانے کس کس ملک میں ہیں اور کیسے وہاں پہنچائے گئے۔ آپ کھرے تلاش کرتے رہیں‘ وہ اسی طرح قانون اور احتساب کے اداروں کو تباہ کرکے دودھ میں دھلتے رہیں گے۔
پنجاب تو ان کے ہاتھوں سے پھسل گیا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ منحرفین کو آئینی تحفظ نہیں مل سکتا۔ اسی لئے تو قومی اسمبلی میں ان کا سہارا نہیں لیا گیا‘ مگر یہ ہیراپھیری پنجاب پر قبضے کے لیے ضروری تھی‘ کرتو لی‘ مگریہ چنے لوہے کے ثابت ہوئے ہیں۔ پنجاب گیا تو باقی کیا رہ گیا ہے۔