یاد ہوگا کہ منیر نیازی صاحب نے ایک یادگار پنجابی نظم لکھی تھی جس میں ''مرن داشوق‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ صاحبِ ذوق آج بھی وہ پوری نظم زبانی سناتے ہیں تو ماضی‘ حال اور مستقبل کی کئی پرتیں نگاہوں کے سامنے سے ہٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔ شاعر‘ ادیب‘ دانشور اور اہلِ فکر ہر قوم میں‘ ہر دور میں رہے ہیں۔ خطرات کو سامنے پا کر بھی اُنہوں نے دل کی بات کہی۔ آنے والے خطرات‘ قومی بے سمتی اورطاقتور طبقات کی لوٹ کھسوٹ‘ معاشرتی ناانصافی‘عدم مساوات اور غریبوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہمیشہ ان کا موضوع رہے ہیں۔ کہیں شاعری کی صورت میں‘ کہیں کوئی کتاب‘ موقع ملا تو تقریر اور اپنے لیے کہیں جگہ پائی تو موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے تحریریں چھوڑ گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد ا ور بہت نقصان اٹھانے کے بعد انہیں اور ان کی شاعری اور تحریروں کو یاد کیا تو کیا کیا۔
ظلم تو یہ ہے کہ بدترین لٹیرے بھی اپنی بے کار باتوں کا وزن بڑھانے کیلئے انہی کے شعر پڑھتے ہیں۔ حبیب جالب‘ فیض احمد فیض اور بہت سے دیگرجن کی زندگی میں ہمارے معتبر حلقوں نے قدر نہ کی اُن کے خلاف مقدمات قائم کیے‘ غداری کے الزامات لگائے گئے اور روزگار کے اسباب اُن پر تنگ کردیے گئے۔ سعادت حسن منٹو نے پاکستان کی محبت میں کسمپرسی کی زندگی قبول کی۔ تحریر میں تازگی ایسی کہ آج بھی ان کی کوئی تحریر پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ دورِ حاضر کی منافقت‘ دوغلے پن اور بے ضمیری کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ ہماری مقتدر تاریخ دان محترمہ عائشہ جلال نے منٹو کی زندگی پر زبردست کتاب لکھی ہے جو کئی سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ آزادی اور تقسیمِ ہند کے واقعات نے معاشرے‘ ذاتی رویوں اور تہذیب پر کیا اثرات مرتب کیے‘ یہ صرف پروفیسر عائشہ جلال کا موضوع نہیں بلکہ ہر شاہکارِ ادب انہی خدوخال کا احاطہ کرتا ہے۔ لکھاری اپنی اپنی بات کرکے رخصت ہولیتے ہیں۔احمد مشتاق کا کمال کا مصرع ہے جو شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول کاعنوان بنایا ہے : کئی چاند تھے سرآسماں کہ چمک چمک کر پلٹ گئے۔
فاروقی صاحب کا ناول زیرِ مطالعہ ہے۔ حتمی بات نہیں ہوسکتی۔ کہانی برصغیر میں مسلم تہذیب کے اُن گوشوں کی منظر کشی کرتی ہے کہ غور کریں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ زوال کے اسباب داخلی ہوتے ہیں‘ جیسا کہ اشرافیہ اور حکمران طبقات کے رویے۔ مغل سلطنت کے آخری دور اور تباہی کے بارے میں آپ نے بھی پڑھا یا سنا ہوگا۔ اگر اتفاق نہیں ہوا تو کوئی تاریخی دستاویز کھول کر دیکھ لیں۔ ایک امریکی دوست تھے‘ جان رچرڈز‘ جنہوں نے ''مغل ایمپائر‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔ وہ سرطان کا شکار ہوکر قبل ازوقت بھر ی دنیا چھوڑ گئے۔ کمال کی کتاب ہے۔ کوئی بھی تاریخ بغیر ثبوت کے ایسے ہی ہے جیسے ذاتی تبصرہ یا رائے۔ ''مغل ایمپائر‘‘ کی بنیاد تاریک کونوں میں رکھے گئے ڈبوں میں بند فائلوں پر ہے۔ بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ اس کی جو ایک کاپی تھی‘ وہ بھی کہیں کھو گئی۔ رچرڈز کی ایک بات جو ذہن میں گردش کرتی ہے‘ جب اس دور کے بارے میں غور کرتا ہوں کہ مغلوں کا المیہ یہ تھا کہ لائق اور قابل ترین شہزادوں کو اس خوف سے قتل کرادیا جاتا کہ وہ کہیں تخت پر قبضہ نہ کرلیں۔ سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ اقتدار کی منتقلی کا کوئی طریقہ نہ اپنا سکے۔ طاقت کا سکہ طاقت سے چلتا اور بادشاہ کی وفات کے بعد اقتدار کی نئی جنگ شروع ہوجاتی۔ یہی حال افغانوں‘ ترکوں‘ عربوں اور ایرانیوں کا تھا۔ مغرب میں بھی اقتدار کی لڑائیاں تھیں مگر بادشاہت میں بھی کوئی اصول تھا۔ اقتدار اُس اصول کے تحت منتقل ہوجاتا۔ جمہوریت نے یہ مسئلہ وہاں حل کردیا۔
خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ ہمارا زوال مغلوں سے شروع ہواتو بیداری کی تحریکیں چلیں‘ اپنا ملک حاصل کیا‘ اپنی ریاست وجود میں آئی‘ لاکھوں معصوم افراد کا نئی سرحد کے دونوں جانب لہو بہا اور آبادی کی مذہبی بنیادوں پر تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھنے میں آئی۔وہ جو اپنے گائوں‘ دوستوں‘ شہروں‘ گلیوں اور اپنے اچھے دنوں کی پر رونق محفلوں کو یاد کرکے تڑپتے اس دھرتی میں دفن ہوگئے‘ کاش کبھی ہم ان کا درد محسوس کرسکتے۔
ملک وجود میں آگیا‘اپنی ریاست بن گئی لیکن جو حشر ہمارے حکمران طبقے نے کیا ہے‘ اس کی ایک جھلک آپ آج کل دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا چونکہ اس سرزمین پر بوجھ کافی عرصہ سے ہے‘ ہم نے بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ امید کی روشنی‘ مایوسی کا اندھیرا‘ ترقی کی چکا چوند‘ تنزلی کی گھاٹی‘ سب کچھ دیکھاہے۔اس تمہید کا مقصد قومی افق پر کالی آندھیوں سے خبردارکرنا ہے۔ہم تو اس کیفیت میں ہیں کہ نہ جائے رفتن‘ نہ پائے ماندن۔ ہم ٹھہرے اس جہان کے بندے‘ پاکستان کے باسی‘ عوام میں سے ایک۔ آپ کا دکھ درد محسوس کرسکنے پر قادر‘لیکن ہمارے حکمران طبقوں کا ڈی این اے کچھ اورہے۔ خاص طور پر وہ جو گزشتہ چالیس برسوں سے ساون کی کھمبیوں کی مانند ہر طرف سے نکل کر منظر نامے پر چھا گئے ہیں۔ آپ انہیں خلائی مخلوق کہنے میں حق بجانب ہیں۔ زمین پر ان کے قدم نہیں ٹکتے۔ بالا ہی بالا حکومت کرتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی اُڑ کر وہاں چلے جاتے ہیں جہاں ان کامال محفوظ ہوتا ہے۔ اگر مجھے اس بات کا یقین نہ ہوتا تو میں کبھی یہ سطور جو ہمیشہ مختلف پیرائے میں لکھتا رہتا ہوں‘ سپردِ قلم نہ کرتا۔ مصلحت کیشی کوایام جوانی میں ہی خیر باد کہہ دیا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ عزت اور سر بچانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھیں اور کچھ دیر کیلئے آنکھیں موند لیں۔ شاید اس کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ آپ گزشتہ چار عشروں کے حکمران کرداروں کو دیکھ لیں۔ یقین نہیں آتا کہ ملک کو کئی مرتبہ تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے ایک مرتبہ پھر ملک بچانے کی فکر لیے اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیے گئے ہیں۔ تیرہ جماعتی ٹولہ آیا نہیں‘ لایا گیا ہے‘ میں غلط ہو سکتا ہوں‘ اس کیلئے پیشگی معذرت لیکن جب ایسی صورتحال کی بار بار تشریح کرنا پڑے تو شکوک و شبہات میں اضافہ لازمی امر ہے۔ کئی برسوں سے ایک صاحبِ احوال سے رابطہ رہتا تھا جن کا صحافت سے تعلق ہے۔ کوئی بات سمجھ نہ آرہی ہو یا کسی واقعے کی بابت تفصیل اور حقائق معلوم کرنے کی ضرورت ہو تو یہ درویش باخبر اصحاب سے رابطہ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ موصوف کہا کرتے تھے کہ اب کبھی بھٹو‘ زرداری اور شریف اقتدار میں نہیں آسکیں گے۔ ہم باتیں سن لیتے مگر حالات کا تجزیہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر کرنے کی کوشش کرتے۔ ہم تو مانیں گے کہ ان دو خاندانوں کے خلاف عمران خان نے عوام میں زبردست تحریک چلائی اور انہونی کردکھائی۔ یہ معمولی بات نہیں کہ ماضی کے سب حکمران‘ لسانیت‘ قومیت پرست‘ علاقائی‘ مذہبی‘ مساواتی‘ سوشلسٹ اور جنہیں وہ ضیا الحق کی پیداوار کہتے تھے‘ اب اکٹھے ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ لیکن یہاں اصل بات سواروں کی نہیں کشتی کی ہے۔ یہ کشتی انہیں کس نے عنایت فرمائی ہے ؟ ان کے سیاسی سفر کیلئے زادِ راہ کہاں سے ملا ہے ؟ قیام و طعام کے اسباب کیا ہیں ؟ اور پھر کشتی کا ساختی میٹریل کیا ہے ؟
آج کل آنکھ کیا کیا تماشے دیکھ رہی ہے۔کیا کچھ سنائی دے رہا ہے۔ اور ہمارے نئے کشتی بان اداروں‘ معیشت اور سیاسی ہم آہنگی کا کیا حشر کر رہے ہیں۔ وزیر‘ اور وہ بھی وزیر خزانہ اعلان کرتا ہے کہ اگر ہم نے سبسڈی ختم نہ کی تو ملک ایک ماہ کے اندر دیوالیہ ہوجائے گا۔ اور وزیراعظم اب تو سوچتے بھی نہیں کہ اصل کون ہے نقل کون۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا کہ سب کچھ اُن کے اور ان کا بندوبست کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ سب کے بارے میں مغربی دنیا میں ثبوت موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری مرنے کی خواہش‘ اجتماعی خود کشی کا شوق بہت پرانا ہے۔