ہم سب کی خواہش ہے کہ ملک ترقی کرے‘ اس میں امن اور استحکام ہو‘ خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ یہ بھی اجتماعی تمناؤں میں سے ہے کہ آئین کی حکمرانی ہو‘ جمہوریت پروان چڑھے‘ حکومتیں اپنی مدت پوری کریں اور پُرامن انتقالِ اقتدارکی روایت مضبوط ہو جائے۔ حکومت یا حزبِ اختلاف‘ عمران خان ہوں یا ان کے سیاسی مخالفین‘ سب کی تقریریں‘ بیانات اور باتیں سنیں تو سب کا اتفاق ہے کہ ہم زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم میں بحیثیت قوم اور ہمارے ملک کی قدرتی دولت میں کوئی کمی نہیں۔ قدرت تو مہربان ہے‘ بس ہم سب کو مل کر آگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات ہوں یا گہرے ہوتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطرات کے سائے‘ ہم سب پریشان ہیں۔ صاحبانِ اقتدار اور سڑکوں پر مارچ کرنے والوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ کوئی خوش نہیں۔ فکر مندی‘ عدم تحفظ اور پریشانی نے سب کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ملک کے حالات بگڑیں تو ہم تنہا کہیں بیٹھ کر یا ملک سے دور کہیں کچھ دور جاکر سکون سے نہیں رہ سکتے۔ یہ صرف ہماری بات نہیں۔ کسی بھی ملک میں ایسے حالات ہوں‘ بحران کی کیفیت برسوں تک مسلط رہے اور اقتدار کے معرکے ہی ہم لڑتے رہیں تو عام لوگوں میں مایوسی تو پھیلے گی۔ سیاست اور سیاست دانوں پر اعتماد کمزور پڑتا جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ اعتماد وقت کے ساتھ تحلیل ہو چکا ہے۔ جمہوریت اور مستحکم حکمرانی کی بنیاد اعتماد پر ہی استوار ہوتی ہے۔
حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ان کے بارے میں ماضی میں بہت کچھ کہا جا چکا۔ ان باتوں کو اب دہرانے کا کیا فائدہ۔ ہم اس وقت بہت ہی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ معیشت کے بارے میں ہم مشکل فیصلے ایک عرصے سے ملتوی کرتے آئے ہیں کہ ہماری حکومتیں ان کا سیاسی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ خود تو سیاستدان اپنے وارے نیارے کرتے رہے اور ملک کے مستقبل کو قرضوں کے بوجھ‘ نجی شعبے میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں‘ بھاری تجارتی خساروں اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نذر کردیا۔ کوئی حکومت یا کسی ایک جماعت کی بات نہیں‘ سب نے 'اپنا وقت پورا کرو اور آگے آنے والوں کے لیے چھوڑ دو‘ کے فارمولے پر عمل کیا۔ خان صاحب سے بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر اس بارے میں معاشی پالیسیاں دوسروں سے مختلف نہ بنا سکے۔ عذر تو ہر کسی نے زبردست پیش کیے اور کرتے چلے گئے مگر اسلامی سوشلزم کی اقتصادی باقیات سے ابھی تک کوئی بھی ملک کو نہیں نکال سکا۔ شہباز شریف کی یہ بات اچھی ہے کہ سب سیاسی جماعتیں ایک مشترکہ اقتصادی چارٹر پر گفتگو کریں اور اتفاق کرلیں لیکن باہمی بداعتمادی‘ ایک دوسرے پر ذاتی حملے اور روزانہ کی جملے بازیاں‘ کرائے کی تیز و تند زبانیں مخالفین کے خلاف اس طرح چلیں تو پھر ایسی فضا میں مل بیٹھنا آسان نہیں۔ اس بارے میں شہباز شریف ماہرین کی ٹیم‘ جس میں علم‘ صنعت اور سیاست کے شعبوں سے لوگ ہوں‘ ترتیب دیں اور ان کی سفارشات دیگر سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھ کر قومی اتفاقِ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے قومی مسائل آپس میں اتنے گڈ مڈ ہو چکے ہیں کہ انہیں علیحدہ دیکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ہماری ریاستی تحویل میں چلنے والی صنعتیں اور بجلی کے شعبے کا خسارہ ہر سال‘ میرے اندازے کے مطابق‘ ہمارے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ اچھے ادوار آئے تھے مگر وہ گزر گئے۔ اب ہم مسائل کی دلدل میں دھنسے ہیں تو وہیں کھڑے ہیں بلکہ اب تو زمین ہمیں مزید نیچے کی طرف کھینچتی چلی جارہی ہے۔
سیاسی بحران ایسے تو پیدا نہیں ہوتے۔ جب حالات خراب ہوتے رہیں‘ زندگیاں مشکل سے گزر رہی ہوں‘ عوام گونا گوں مسائل میں گھرے ہوئے ہوں تو ہیجانی کیفیت پید اکرنا ایسے ہی ہے جیسے خشک بھوسے کو ماچس کی تیلی دکھانا۔ ہر ملک میں مذہبی اکابرین‘ نسل پرستوں اور لسانی گروہوں کے علاوہ پاپولسٹ سیاسی رہنمائوں نے عوام میں پھیلی مایوسی کو استعمال کیا ہے۔ یہ بات کہنی بنتی نہیں کہ کسی نے ایسا کیوں کیا۔ حالات جب ایسے ہوں گے تو وہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے اپنا مال منڈی میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ قافلوں کے سربراہ حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہماری تو تاریخی روایت ہی ایسی رہی ہے کہ ہم مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسیحائوں کی آمد کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ حالات پہلے سے ابتر ہیں۔ بگاڑ کے اسباب کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ اب حکومتی دھڑے اور جی ٹی روڈ پر رواں دواں مارچ کرنے والے کس بات کا انتظار کررہے ہیں؟ لاہور سے لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواںدواں ہے۔ اسلام آباد والے اس سے نمٹنے کی پُرجوش تیاریوں میں ہیں۔ طرفین کی نعرہ بازی سن کر فلم مولا جٹ (اصلی اور پرانی) کے مکالمے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ نہ جٹ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہے‘ نہ نوری نت راستہ دینے پر آمادہ ہے۔ ایسی لڑائی لوگ روازنہ ٹیلی وژن سکرنیوں پر دیکھتے ہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو داد دینا شروع کر دیتے ہیں کہ کیا خوب چھکا لگایا ہے۔ اسی لیے تو ہم نے درویشی اختیار کررکھی ہے کہ نہ یہ تماشا دیکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے غموں میں ایک اور کا اضافہ کرتے ہیں۔ البتہ دکھ تو ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی حدت کیا رخ اختیار کرے گی۔
ہماری سیاست میں اس وقت دو دھڑے ہیں۔ عوام بھی ان کے درمیان تقسیم نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تیرہ جماعتی اتحاد ہے‘ دوسری طرف تحریک انصاف۔ ایک کے پاس حکومت ہے‘ دوسرے کے پاس سڑکیں۔ ایک طرف اسلام آباد کی مورچہ بندی ہے‘ دوسری طرف مارچ ہے۔ ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ ایسی کشمکش کوحق و باطل سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ امریکہ تو اس بارے میں متعدد بار کہہ چکا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو حق پر نہیں۔ وہ غیر جانبدار رہنے کا حق نہیں دیتا۔ ان کے ایک وزیر خارجہ نے سرد جنگ کے زمانے میں کہا تھا کہ یہ لڑائیاں اقتدار کی ہیں۔ ان میں حق اور اخلاقیات کو تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی کی تلاش۔ یہ سیاست ہے۔ دوسری رائے ہو نہیں سکتی۔ عام معمول کی سیاست ہو یا بحرانی نوعیت کی‘ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا ہوتا ہے۔ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا‘ سیاست اور ملک کے استحکام اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ 44 سال سے ہم تصادم کی سیاست دیکھتے آئے ہیں۔ صرف بڑے کھلاڑی اور اس کھیل میں شامل دھڑوں کی ترتیب تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اس وقت میدان لگا ہوا ہے۔ آگے کیا ہوگا کی کسی کو خبر نہیں۔ ہر طرف سے ''ڈٹے رہیں گے‘‘ کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ ادارے کمزور ہوں تو سیاسی تنازعات بحران کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہماری پارلیمان ادھوری ہے کیوں کہ بڑی سیاسی جماعت اس سے باہر ہے۔ ایسا اس نے اپنی مرضی سے کیا ہے۔ یہ صورت حال بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ پارلیمان کون چلاتاہے‘ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ اس کی لگام ہمارے چند سیاسی اکابرین کے ہاتھ میں ہے۔ روزانہ آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ روایتی کشیدگی‘ تنائو اور سیاسی حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب کون کسے کہے‘ سب کو مل کر ملک کا سوچنا چاہیے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ مسائل کا ادراک بھی سبھی رکھتے ہیں تو پھر مل کر کوشش کیوں نہیں کرتے؟ سیاست برائے اقتدار اگر اس سے بڑھ کر قومی جذبے کی متقاضی نہ ہو تو پھر خود غرضی ایسے ہی تصادم کی فضا قائم کرتی ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔