ہر وہ شخص خوش قسمت ہے جس کے اچھے دوست ہوں اور وہ سب مخلص ہوں۔ جنہیں مل کر‘ باتیں کرکے بندے کا دل خوش اور دماغ تروتازہ ہو جائے۔ ہر ایک کے دوست ہوتے ہیں۔ اس میں امیر یا غریب کی تخصیص بھی نہیں۔ ہاں‘ یہ ہو سکتا ہے کہ اشرافیہ کی دوستیاں بالائی طبقے سے ہوں جبکہ غریبوں کی اپنے طبقے کے افراد سے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ انسان معاشرے میں رہے اور اس کے دوست نہ بن سکیں۔ کبھی تھوڑی سوچ بچار کریں تو زندگی میں جن لوگوں سے ملنا جلنا‘ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے‘ ان کی تعداد بہت محدود ہوتی ہے۔ ان میں قریبی رشتہ دار‘ سکول اور یونیورسٹی کے زمانے اور پھر اگر ملازمت کرتے ہیں تو اس دوران جن ہم کاروں کے ساتھ تعلقات استوار کیے‘ سب شامل ہیں۔ اس بابت کوئی حساب کتاب تو نہیں رکھا جاتا اور گننا چاہیں تو آپ گن نہیں پائیں گے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جن سے تعلق رہا ہے‘ جنہیں آپ دوست سمجھتے اور کہتے ہیں‘ ان ہی سے تعلق رکھیں۔ ان کے ساتھ ہی تعلقات میں گہرائی‘ وسعت اور خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس بارے میں کوئی اصول طے کر لینا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہمیں تنہا کر سکتا ہے۔ ہر آدمی اس لیے اپنی بساط‘ پیشے‘ وقت اور ترجیحات کے مطابق یہ طے کرتا ہے کہ کس سے ملنا ہے‘ کہاں جانا ہے اور کہاں سے گریز کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے دوست کسی بھی وقت بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر سکول کے زمانے کے دوست ہمیں نہیں بھولتے۔ اکثر لوگ شہروں میں آباد ہوکر گائوں سے رشتہ توڑ لیتے ہیں اور پھر وہاں کا رخ نہیں کرتے۔ سب پرانے یار‘ دوست جن کے ساتھ بچپن کے دن گزرے تھے‘ سب وقت کی دھول میں ہماری زندگیوں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ہم سب مسافر جو ٹھہرے۔ کئی منزلوں پہ لوگ ملتے ہیں‘ کچھ دیگر رکتے ہیں‘ پھر اگلے ٹھکانوں کی طرف قدم اٹھنے لگتے ہیں۔
درویش خوش قسمت ہے کہ مسافر تو رہا اور زندگی کا زیادہ حصہ کہیں دور گزار دیا مگر دریائے سندھ کے کنارے اور پرانی بستیاں واپس اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سوچتا ہوں کہ جب درس و تدریس سے فراغت حاصل ہو جائے تو وہاں جا کر آباد ہو جائوں۔ آج کے دور میں ہمارے پس ماندہ علاقوں میں بھی بنیادی سہولتیں اس قدر تو ضرور ہیں کہ انسان اپنی نئی دنیا بسا سکتا ہے۔ دیکھیں‘ زندگی کا گھوڑاہمیں اس طرف لے جاتا ہے یا کہیں اور گراتا ہے ۔ ہمارے وہ د وست جن کے ساتھ پرائمر ی سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر سبق لیا کرتے تھے اور تفریح کے دوران کھیلا کرتے تھے‘ اب بھی ملتے ہیں ۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد اب ہم میں موجود نہیں رہی۔ میرے پرائمری کے کلاس فیلوز میں سے ایک بھی مڈل‘ یعنی آٹھ جماعتیں پاس نہ کرسکا۔ ہر سال کچھ سکول چھوڑ جاتے۔ آخر میں بس میں ہی اکیلا رہ گیا۔ اس سال ہمارے سکول کا نتیجہ سو فیصد رہا کیونکہ واحد امیدوار میں ہی تھا۔ مڈل کاامتحان پاس کرلیا ۔ تب یہ امتحان لاہور بورڈ لیا کرتا تھا۔ ہم اگلی منزلوں کی طرف نکل گئے اور ہمارے دوست اپنے آبائی پیشوں میں مصروف ہوگئے ۔ چند ایک تو بے کار ہی رہے ۔ ان کی حالت دیکھتا ہوں تو بہت ترس آتاہے ۔ کاش وہ بھی تعلیم جاری رکھ سکتے اور میرے ساتھ آگے چلتے ۔
تعلیم مکمل نہ کرسکنے اور چند جماعتوں کے بعد چھوڑ دینے والے بچوں کی تعداد آج بھی بہت زیادہ ہے ۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ آپ اور میں جو لکھ پڑھ سکے‘ ہم کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے۔ ویسے ہی انسان جو ہمارے گائوں کے پرانے دوست تھے ‘ اور کچھ اب بھی حیات ہیں ۔ زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کی اولاد ہیں جو چند قدم چلنے کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں ۔ بات دراصل بچوں کی نہیں‘ سماجی اور معاشی نظام کی ہے جو موقع تو سب کو دیتا ہے مگر آگے چلنے کی سکت سب میں نہیں ہوتی ۔ خوراک اور غذائیت کا فقدان ہو اور گھر میں بچوں کی کثرت ہو تو ذہنی استعداد متاثر تو ہوگی ۔ ہمارے ملک میں سکول سے بچوں کے ڈراپ آئوٹ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں مگر خوراک کی کمی میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ ہے ۔ سکولوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بچے کلاس میں جسمانی طور پر موجود ہوتے ہیں‘ دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں ‘ سنتے بھی ہیں مگر دراصل ان کے پلے کچھ بھی نہیں پڑتا۔ ہمارے اساتذہ بھی کمال کے لوگ تھے ۔ شاگردوں کو کچھ سمجھ میں نہ آتا‘ حساب کا سوال غلط کربیٹھتے یا املا کی غلطیاں ہوجاتیں تو ڈنڈوں سے بچوں کی ایسی مرمت کرتے کہ اب سوچتاہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ میں خود کئی مرتبہ مرغا بنا‘ ڈنڈے بھی کھائے ۔ اور جب ہائی سکول میں داخلہ لیا تو ایک استاد کا ڈنڈا چلتا دیکھا تو چار دن بعد سکول چھوڑ کر بھاگ گیا۔ کئی ماہ آوارہ گردی کی ۔ پھر کسی دوسرے ضلع کے ایک پرائیویٹ سکول میں داخلہ لیا۔ وہاں استاد بھی ایسے ملے کہ ہماری زندگیاں سنور گئیں۔ کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔
قدرت کا نظام ہی ایسا ہے کہ کوئی کندذہن پیدا نہیں ہوتا۔ سب کی ذہنی استعداد یکساں ہوتی ہے ۔ فرق صرف خوراک‘ ماحول اور استاد کی اپنی تربیت اور پیشہ ور صلاحیت سے پڑتا ہے ۔ استادوں کا ڈنڈے برسانے کا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ مار مار کر شاگردوں کو بھگا دیں۔وہ تو خود مڈل یا میٹرک پاس تھے ۔ بچوں کی نفسیات سے نابلد‘ پرانے طریقوں پر چلنے والے ۔ آج بھی ایسی سوچ کے اساتذہ کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ جب تک خوف پیدا نہ کریں‘ بچے نہیں پڑھیں گے ۔ ان میں سے کچھ ہمارے بھائی اعلیٰ اسناد بھی رکھتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ خوف انسان کو کھوکھلا کردیتا ہے ۔ فکری افلاس پید اہوتا ہے ۔ ایسے میں بچے تعلیم سے کیونکر رغبت رکھیں گے ۔ جب میں اپنے سکول کے دوستوں کو زندگی میں خوار ہوتے دیکھتا ہوں تو میری نظر استاد کے ڈنڈے پر جاتی ہے ۔ اُس زمانے میں یہ روز کا معمول تھا ۔ ہر کلاس میں کوئی نہ کوئی استاد کسی کی مرمت کررہا ہوتا۔ یقین مانیں میں بہت خوف زدہ رہتا تھاکہ کبھی کسی ایسے استاد کی ''زد ‘‘ میں نہ آجائوں ۔ کچھ شوق تھا‘ کچھ ڈر اور پھر قسمت اچھی نکلی کہ سکول سے نکل کر کالج میں پہنچ گئے ۔ تعلیم چھوڑ دینے والے دوست بس وہیں رہے۔ آج بھی جب بچوں کو سکول چھوڑتے دیکھتا ہوں تو اپنے دوستوں کی تصویریں ذہن میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ اگر چہ سرکاری اور قانونی طور پر تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی لگ چکی ہے مگر ہمارے دیہاتی سکولوں میں استاد اپنے اس ''استحقاق‘‘ پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیارنہیں ۔ دنیا بدل چکی ۔ سکولوں کا معیار‘ طریقہ‘ ماحول اور سہولتیں‘ سب کچھ بدل گیا ۔ امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم کی جدت دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے ۔استاد کی مار کھا کر بھاگ جانے والے دوست بھی بہت یاد آتے ہیں ۔ ان کی زندگیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی مظلومیت ‘ محرومی اور تنگ دستی کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہراتا ہوں ۔ آج بھی غریبوں کے لیے تعلیمی نظام الگ ہے ۔ اس نظام سے اٹھ کر آگے نکلنا آسان نہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اشرافیہ اور حکمران طبقات نے اپنے ادارے الگ بنا لیے‘ اور ان کے خواب اور منزلیں بھی الگ ہیں۔ میرے وہ دوست ابھی دوست ہیں مگر انہیں مل کر دکھ ہوتا ہے ۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی خوش ہیں ‘ اپنے حال پر ۔