اب جب کہ ہم عام انتخابات کے قریب ہیں، سیاسی تجزیہ کار اورجائزہ لینے والے گروپ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت ، اُن کی طرف سے پیش کیے جانے والے منشور، انتخابی اتحاد اور انتخابات جیتنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنائی جانے والی حکمتِ عملی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے روایتی سیاسی کلچر کا حصہ ہے جس میں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے انتخابات میں کامیابی کے لیے اتحاد تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ان اتحادوں کا تشکیل دیا جانا ہماری سیاست میں شجر ِممنوعہ نہیں ہے۔ اگر سیاست کے مثالی معیار کی بات کی جائے تو اس کا مقصد عوام کی فلاح ، نہ کہ ذاتی مقاصد کی بجاآوری ہوتا ہے لیکن ایک سیاسی جماعت ایسا اسی صورت میںکر سکتی ہے جب وہ اقتدار میں آجائے۔ چنانچہ انتخابی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی پہلی اور آخری ترجیح اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے مناسب حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے سیاسی جماعتیںاور رہنما معاشرے کے معروضات جس میں ذات ،نسل اور عوامی رجحانات کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ سماجی ڈھانچے اور سیاسی کلچر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسی حکمتِ عملی تشکیل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ ایسے امکانات کو ووٹنگ بلاکس کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر کی طرح جو ابھی پختہ ہونا باقی ہے، ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں بھی ان حقائق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ تاہم ہر معاشرے کا کلچر اور سماجی قدریں اور معاشی رجحانات وہاں تشکیل پانے والے ووٹنگ بلاکس کے خدوخال طے کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین، نسلی اقلیتیں، مذہبی گروہ، مزدور پیشہ افراد ، بوڑھے اور جوان مختلف ووٹنگ بلاکس تشکیل دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کے خدوخال ذات پات، سیاسی خاندانوںسے عوام کی وابستگی، نسلی اور قبائلی اور جاگیرداری نظام کے پیمانوں سے وجود میں آتے ہیں۔ ہمارا پرانا روایتی سیاسی نظام قومی مسائل کا احاطہ کرنے کی بجائے سماجی اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی رجحان کی وجہ سے ہماری موجودہ سیاسی جماعتیں قائم ہیں اور ان کے درمیان سیاسی تصادم یا مفاہمت کا عمل وجود میں آتا ہے۔ ہمارے ملک میں کئی عشروں سے پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے د رمیان سیاسی طور پر سخت مسابقت پائی جاتی ہے جو آج تک جوں کی توں ہے۔ دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے وسیع ترووٹنگ بلاکس تک رسائی حاصل کریں۔ اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی خاندان اپنی سیاسی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھتے ہیں؟ ان میں سے کچھ سیاسی خاندان ہر قسم کے اچھے برے حالات میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کے منتشر سیاسی معاشرے میں دو جماعتی نظام تشکیل پا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں ، جب کہ انتخابی میدان سجنے والا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سے تعلق توڑ کر مخالف جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے (پی پی پی کی صفوں سے نکلنے والوں کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس سے ان سیاسی خاندانوں کی عملیت پسندی کا مظاہرہ ہوتا ہے کیونکہ اُن کا اصل مقصد حکومت میں آنا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے یا اس سے گریز کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔اگر کسی جماعت کی کامیابی کے اشارے ملنا شروع ہو جائیںتو اس کی طرف جانے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سیاسی خاندان محض قوت کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھتے ہیں، ان کے پیش ِ نظر عوامی فلاح کا جذبہ نہیں ہوتا۔ زیر ِ بحث سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے عام انتخابات میں بھی وہی روایتی سیاسی رجحانات غالب رہیںگے یا نئے سیاسی امکانات وجود میں آئیںگے؟ یہ نئے سیاسی امکانات کیا ہوں گے؟ یہ عوام کو سیاسی طور پر دی جانے والی ترغیب ہے کہ وہ موروثی سیاست کی علامت، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے انقلابی اقدامات کا دعویٰ کرنے والوں کو ووٹ دیں۔ اس وقت تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں میں عمران خان کی پی ٹی آئی سرفہرست ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں حیران کن نتائج دے گی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ سحر انگیز شخصیت کے مالک رجائیت پسند عمران خان اور ان پر عام آدمی کے اعتماد نے روایتی موروثی سیاست کو ہلاکررکھ دیا ہے۔ اگر پی ٹی آئی اس بار انتخابات نہ بھی جیت سکی لیکن تیسری بڑی جماعت کے طور پر پاکستان کے سیاسی نقشے پر ابھر آئی تو اس کا مطلب بھی یہی ہو گا کہ تبدیلی آچکی ہے۔ اس سے پاکستان کا سیاسی کلچر ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے گا اور یہ تبدیلی بہتری کی طرف ایک قدم ہو گا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں منقسم پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی سخت اپوزیشن کا کردار ادا کرنا بہتر سمجھے گی بجائے اس کے کہ وہ کسی کو حکومت سازی میں مدد فراہم کرے۔ اس کے اراکین کی اسمبلیوں میں موجودگی حکمران پارٹی یا مخلوط حکومت پر زبردست دبائو ڈالے گی، اس لیے انہیں ملک و قوم کی فلاح کے لیے اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اس سے کم از کم ایک جمہوری انقلاب آجائے گا۔ ان انتخابات میں تیسری پوزیشن پر آنے کا مطلب ہو گا کہ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں’’ کپتان ‘‘ ہی پاکستان کی قیادت کریںگے۔