انتخابات کا ایک پہلو تنازعات کا حل بھی ہوتا ہے۔ عوامی نمائندگی، علاقائی حقوق، عام لوگوں کے مسائل اور مطالبات اور وسائل کی تقسیم جیسے پیچیدہ معاملات کے حل کے لیے عوامی نمائندوںکی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں تو پاکستان کے تمام علاقے مختلف مسائل کا شکار ہیں لیکن پرویز مشرف کے جابرانہ رویے اور کوتاہ بینی کی وجہ سے بلوچستان گزشتہ ایک دہائی سے مسائل کا جوالا مکھی بن چکا ہے۔تاہم پانچ سال پہلے جب مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار ایک جمہوری حکومت کے ہاتھ آیا تو ایک موہوم سی امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں گے؛ لیکن اس دور میں اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے سوا کوئی پیش رفت نہ دیکھی گئی۔ اس حکومت کے دامن پر ناکامیوںکے بہت سے داغوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے ناراض بلوچ قوم پرستوں کو راضی کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ یہ صوبہ لہورنگ رہا اور ہم بے بسی سے ہدفی قتل، ہلاک کرنے کے بعد لاشوں کو سڑکوں کے کنارے پھینکنے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کے واقعات کو دیکھتے رہے۔ بلوچستان اسمبلی، جس میں تقریباً تمام ہی وزرا تھے، اور سابقہ حکومت نے نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم کو آپس میں تقسیم کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ ایک بات واضح تھی کہ اُس اسمبلی میں بیٹھے افراد بلوچ عوام کے صیحح نمائندے نہ تھے۔ وہ زیادہ تر مشرف حکومت کے دوران کارفرما نادیدہ ہاتھ اور سیاسی چالبازیوں کے ذریعے اقتدا ر کی سیڑھی چڑھ آئے تھے۔ اُن میں سے چند ایک قبائلی سماج سے تعلق رکھتے تھے؛ چنانچہ اُنھوںنے اقتدار میں آنے کے لیے لین دین کا آپشن کھلا رکھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچ سرداروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی رہی ہیں؛ چنانچہ ہر حکومت اُن کو ساتھ ملانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتی ہے۔ یوں تو پرویز مشرف نے اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے ہر جمہوری ادارہ تباہ کیا، لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی پالیسی تھی۔ اُنھوںنے اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا دروازہ کھولا۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں بھی ’’تقسیم اور حکومت‘‘ کی پالیسی اپنائی۔ ایک کم عقل اور ان پڑھ بھی جانتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو پروان چڑھنے کے لیے وقت درکار ہو تا ہے اور یہ کہ سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت عمل میں نہیں آسکتی۔ ہمارے ملک میں تمام فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لیے سیاسی نظام، سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں، جیسا کہ عدلیہ کو تباہ کرنا‘ ناگزیر سمجھا۔ مشرف بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوںنے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ان کی غیر موجودگی میں منتخب ہونے والے افراد بلوچستان کی نمائندگی کا حق نہیں ادا کر سکے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ا یک اہم مسئلہ رہا ہے کہ کیا وفاقی اور صوبائی سطح پر ہونے والی قانون سازی میں شریک افراد بلوچ عوام کی حقیقی نمائندگی کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ اس پس ِ منظر میں بلوچستان کے سابق وزیر ِ اعلیٰ سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان اس ستم رسیدہ صوبے کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا آغاز ہے کیونکہ قسمت نے ہمیں ایک اور موقع عطا کیا ہے کہ ہم بلوچستان کے مسائل، جن کو بلوچ قوم پرست رہنما سردار اکبر بگتی کے قتل نے مزید سنگین کر دیا تھا، کے حل کی طرف بڑھ سکیں۔ پاکستان کی تاریخ ایسے افسوس ناک واقعات سے بھر پور ہے۔ ہمارے وردی پوش حکمرانوں نے ملک کو مغل بادشاہوں کی طرح شخصی انداز میں چلایا۔ شاید یہ مثال بھی پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتی‘ کیونکہ کچھ مغل بادشاہ پر وقار اور باانصاف ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی کلچر کی آبیاری کے لیے کوشاں رہتے تھے، لیکن ہمارے ہاں زمام ِ اختیار سنبھالنے والے ہر فوجی حکمران میں ان خوبیوں کی کمی پائی جاتی تھی؛ چنانچہ مشرف نے طاقت کے نشے میں بلوچ سرداروں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرتے ہوئے معاملہ بہت حد تک بگاڑ دیا۔ سردار اختر مینگل اور دیگر قوم پرست رہنماسیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اُن کے خوف وخدشات دور کرتے ہوئے اُن کا اعتماد بحال کیا جائے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اُن کے تمام الزامات غلط نہیں ہیں۔ وہ جن خدشات کا اظہار کررہے ہیں، اُنہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری تاریخ کہتی ہے کہ یہاں نادیدہ ہاتھ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی ایسا ہوتا ہے تو یہ انتہائی مضمرات لیے ہوئے ہو گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو اپنے نمائندے آزادی سے منتخب کرنے دیے جائیں تاکہ یہاں کی جامدفضا میں سیاسی عمل سے ارتعاش پیدا کیا جا سکے۔ یہ بات بھی مد ِنظر رکھی جانی چاہیے کہ کچھ ناراض نوجوان بلوچ لیڈر پہاڑوں پر قومی اداروں کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان کو واپس قومی دھارے میںلانے کے لیے حقیقی بلوچ رہنمائوں کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ نام نہاد، جیسا کہ گزشتہ اسمبلی میں تھے، نمائندوں کی بات نہیں سنیں گے۔ اگر اس صوبے میں حقیقی بلوچ رہنمائوں کو عوام سے ملنے والے مینڈیٹ کے بعد اقتدار قائم کرنے دیا جائے تو بلوچستان میں امن و استحکام کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو اُن کی بات سننی چاہیے۔