"RBC" (space) message & send to 7575

کیا تبدیلی کی گھنٹی بج گئی؟

اب جبکہ عام انتخابات کے انعقاد میں پانچ دن رہ گئے ہیں۔ ہر انتخابی حلقے میں عوام کو مائل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی مہم نکتۂ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر اُس شخص کے دل میں جو انتخابات میں حصہ لے رہا ہے یا ان پر نظر رکھے ہوئے ہے، غیر جمہوری دہشت گرد قوتوںکی طرف سے پیدا کیا گیا خوف جاگزیں ہے جبکہ اُس کے ذہن کو یہ سوالات گھیرے ہوئے ہیں کہ کیا یہ انتخابات پہلے ہونے والے انتخابات سے مختلف ہوں گے؟اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ پرتشدد، غیر محفوظ اور عدم استحکام سے پُر‘ فضا میں انتخابات کا انعقاد آسان کام نہیں۔ خصوصاً جب کچھ سیاسی جماعتوں، جیسا کہ ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی کو دہشت گرد قوتیں اپنا ہدف بنائے ہوئے ہوں، تو نظر یہی آتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے یکساں مواقع میسر نہیں ہیں۔ یہ جماعتیں دبائو کا شکار ہیں لیکن ان کا دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کا عزم قابلِ تعریف ہے۔ تنگ نظری اور دقیا نوسی سوچ پر مبنی تشدد پسند عناصر کے عزائم رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے سے باز رکھنے اور امیدواروں کو سیاسی میدان سے بھگانے، تک ہی محدود نہیں بلکہ اُن کی کارروائیوں کا ہدف اس سے بھی بڑا ہے اور وہ ہے جمہوریت۔ وہ جمہوری عمل کو سبوتاژ اور آئین کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ عوام اپنے نمائندے خود منتخب کر کے حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ یہ سوچ رکھنے والے مسلح جہادی گروہ اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کی اکثریت اُن کے نظریات سے اتفاق نہیںکرتی؛ چنانچہ وہ انتخابی عمل میں شامل ہوکر مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکتے۔ اُن کے ہاتھ میں اسلحہ ہے‘ وہ عقل اور منطق کی بات سننے اور سمجھنے کے بھی روادار نہیں‘ اور اُن کی قدامت پرستانہ سوچ کسی معاشرے کو فتح کرتے ہوئے اُس پر اپنا نظام نافذ کرنے تک ہی محدود ہے، تاہم آج کے دور میں یہ ممکن نہیں۔ طاقتور اور مہذب ملک تو ایک طرف، کمزور اور ناکام ریاستیں بھی ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ ان ریاستوں میں اتنی سکت موجود ہے کہ وہ ان گروہوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لوگوں، معاشرے اور سیاسی جماعتوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے اصل دشمن کو پہچانیں۔ اس میں کوئی شک نہیںہونا چاہیے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے مذہبی انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور جہادی نظریات کارفرما ہیں۔ ایسے گروہ جمہوری قدروں کو تسلیم نہیںکرتے۔ اس وقت اے این پی (جس کے تیس کے قریب رہنمائوں اور انتخابی امیدواروں کوموجودہ انتخابی مہم کے دوران نشانہ بنایا گیا ، آئین اور جمہوری عمل کے فروغ کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی وجہ سے) ہماری حمایت کی مستحق ہے۔ آج جب ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہمیں ان افراد کے اہل خانہ اور معصوم بچوں کا دکھ یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں ایسے افراد کے ساتھ جو ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر اظہارِ یکجہتی کرنا ہوگا کیونکہ یہ کسی ایک جماعت کی نہیں‘ جمہوریت کی جنگ ہے۔ یہاں ایک اور حقیقت بھی ہمیں پیش ِ نظر رکھنی چاہیے کہ یہ پرتشدد کارروائیاں انتخابات کا فیصلہ نہیں کرسکتیں۔ اس بات کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ گیارہ مئی کو کتنی بڑی تعداد میں گھروںسے باہر نکل کر انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ اگر وہ ان انتخابات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں تو پھر ان کو ہر قسم کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس مرتبہ ٹرن آئوٹ ماضی کی نسبت زیادہ ہو۔ ہم ایسا کر کے انتہا پسندوں کو ایک پیغام دیں گے کہ لوگ ان کی کارروائیوں کے حق میں نہیںہیں اور یہ ملک جمہوریت کے لیے ہی بنا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور تلخ حقیقت سے بھی صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں کہ جب رائے دہندگان انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تو وہ دراصل جمہوریت نہیں، بلکہ سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر آمرانہ روش رکھنے والے رہنمائوں کی اجارہ داری، داخلی جمہوریت کا فقدان اور جمہوری حکومت کی ناقص کارکردگی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ 2013ء کے یہ عام انتخابات بہت سے حیران کن پہلو لیے ہوئے ہوں لیکن نظر یہ آتا ہے کہ سب سے بڑا سرپرائز زیادہ ووٹنگ ٹرن آئوٹ کی صورت میں ہوگا۔۔۔ اور اسی نے سارا کھیل تبدیل کر دینا ہے۔ اگر اس مرتبہ 2008ء کے ٹرن آئوٹ سے جو کہ چوالیس فیصد تھا، دس سے پندرہ فیصد بھی زیادہ ہوا تو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو حیران کن نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس مرتبہ ٹرن آئوٹ کہیں زیادہ ہو گا اور شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین ٹرن آئوٹ ثابت ہو۔ میرے پاس اس رجائیت کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کی صورت میں ایک نئی سیاسی جماعت انتخابی قوت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں متحرک کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے دائرہِ عمل کا ارتکاز زیادہ تر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے شہری علاقوں میں رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مرتبہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کی کل 671 نشستوں اور قومی اسمبلی کی 272 نشستوںکے لیے ہونے والے انتخابات میں امیدواروںکی ریکارڈ تعداد سامنے آئی ہے۔ اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کو ملنے والے ووٹ تقسیم ہوجائیں لیکن ان کی وجہ سے زیادہ لوگ بھی گھروںسے نکل کر مجموعی ووٹنگ ٹرن آئوٹ کو بڑھا دیںگے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مختلف بحرانوں ، جیسا کہ لوڈ شیڈنگ ، خراب معیشت ، بدعنوانی اور گزشتہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے ردِ عمل میں بھی لوگ ووٹ ڈالیں گے کیونکہ وہ اس کے ذریعے ان مسائل سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ آخری‘ جدید ذرائع ابلاغ، جیسا کہ ٹی وی پر چلنے والے سیاسی اشتہارات، بھی عوام کو سیاسی تحریک دے رہے ہیں۔روایتی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ زیادہ ٹرن آئوٹ کا مطلب پی ٹی آئی کی کامیابی ہو گی۔ بہرحال یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے، اور ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس مفروضے میں کتنی جان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں