اس موضوع پر میںنے بار ہا لکھا ہے اور آج میرے پاس یہ کہنے کے لیے معقول وجہ ہے کہ پاکستان میں مثبت تبدیلی آچکی ہے اور اب یہ ملک کئی حوالوںسے تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہے گا۔ پچھلی مرتبہ جب میںنے اس موضو ع پر قلم اٹھایا تھا تو بہت سے افراد نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے میری بے بنیاد رجائیت قرار دیا۔ ایسے افراد کی سوچ کا دھارا ہمیشہ منفی خطوط پر بہتا ہے۔ یہ بات میرے لیے حیران کن نہیںہے کیونکہ میں جانتا ہوںکہ میڈیا کے ایک بہت بڑے دھڑے اور بہت سے کالم نگاروںنے ایک خاص ایجنڈے کے تحت ملک میں مایوسی کی فضا پھیلائی ہوئی ہے۔ ان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ ملک کو حا صل ہونے والی کامیابی پر پردہ ڈالتے ہوئے ناکامی کو اجاگر کیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ عوام کی دل شکنی اور مایوسی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ اس قنوطی گروہ کو وہ تبدیلی نظر نہیں آتی جو پاکستان میں ووٹ کی طاقت سے آئی ہے۔ پہلے ان افراد کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے تھے، پھر ان کو ا نتخابات کے نتیجے میں ایسی معلق پارلیمنٹ نظر آنے لگی جو ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل دیتی۔ تاہم جب اُن کی توقعات ناکامی سے ہم کنار ہوئیں تو انھوںنے منتخب شدہ افراد کی اہلیت پر شکوک و شبہات ابھارنا شروع کر دیے ہیں کہ یہ افراد ملک کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ ان افراد کے منفی تبصروںسے بے نیاز پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے۔یہ عمل اتنا توانا ہے کہ یہ پاکستان کو درست راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج پر غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ پاکستانی عوام نے بہت سی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ پاکستانیوںنے ووٹ ڈالتے ہوئے سب سے پہلے تو دہشت گردوں کو، جن کی طرف سے سیاسی رہنمائوں‘ جماعتوں اور رائے دہندگان کو دھمکی تھی کہ وہ الیکشن کے موقع پر تباہی پھیلائیں گے، ہزیمت کی ذلت اٹھانا پڑی کیونکہ پاکستانی اُن کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائے اور گھروںسے باہر نکل کر ریکارڈ تعداد میں ووٹ کاسٹ کیے۔ بی بی سی کے نمائندے Lyse Doucet کے مطابق ۔۔۔’’ یہ خوف اور ہمت کے درمیان مقابلہ تھا۔ ہمت نے خوف کو شکست دے دی۔ ‘‘اے این پی دہشت گردوںکے عتاب کا سب سے بڑا نشانہ بنی اور اس نے سب سے زیادہ جانی نقصان برداشت کیا۔ اس کے بہت سے رہنمائوں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔تاہم اے این پی کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا اس کی وجہ دہشت گردی کی کارروائیاں تھیں؟ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے ، لیکن میرا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ سال کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے اُن کو یہ دن دیکھنا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں پشتون قوم پرستی کے جذبات ماند پڑ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اے این پی کے حامیوںکی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ اب اس خطے میں عوام کی ترجیح قوم پرستی سے زیادہ سماجی اور معاشی مسائل ہیں۔ اب اے این پی کو سیاسی اُفق پر اُبھرنے کے لیے یا تو قوم پرستی کے جذبات کو از سرِ نو ابھارنا پڑے گا یا پھر کسی اور معروضے کو سیاسی نعرہ بنانا پڑے گا۔ فی الحال یہ دونوں امکانات مدہم ہیں۔ ان انتخابات نے اس خیال کی بھی نفی کر دی ہے کہ پی پی پی غریب عوام کی نمائندہ جماعت ہے ، اس لیے وہ اس کے ساتھ ہر حال میں اپنی سیاسی وابستگی قائم رکھتے ہیں۔ ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ غریب عوام بھی اتنے ہی عقل مند ہوتے ہیں جتنے کہ امیر اور نا خواندہ۔ اُنہیں بھی اپنے مفاد کا تحفظ اتنا ہی عزیز ہوتا ہے جتنا کہ تعلیم یافتہ افراد کو۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران جب پی پی پی کے رہنمائوں نے غریب عوام کو روٹی کے لقمے لقمے کے لیے ترسا دیا تھا تو اُ ن کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ خالی پیٹ لوگ اُن کے ڈبے ووٹوں سے بھر دیںگے۔ پاکستان میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب پاکستانی رائے دہندگان نے شخصیات سے جذباتی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیے ہیں۔ کامیاب پارٹی، مسلم لیگ نون کو یہ پیغام سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر پڑے ہیں تو سندھ میں پی پی پی نے خاطر خواہ کامیابی کیسے حاصل کی ہے۔ اس ضمن میں کچھ زمینی حقائق کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ بات یہ ہے کہ جاگیردارانہ معاشرے میں عام سندھی ابھی بھی بھٹو خاندان سے جذ باتی وابستگی رکھتا ہے۔ تاہم یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جذ باتیت کب تک عملیت پسند ی کا راستہ روک سکے گی؟کب تک بھٹو خاندان کی قربانیاں موجودہ نااہلی اور بدعنوانی پر پردہ ڈال سکیں گی؟ میرے خیال میں پاکستان میں سب سے بڑی اور خوش آئند واضح تبدیلی یہ ہے کہ عوام نے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم بہت سی تشویش ناک باتیں سنتے تھے کہ مذہبی انتہا پسندوںنے پاکستانی معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب وہ ریاست پر قبضہ بھی کر لیںگے۔ یہ با ت نہایت مضحکہ خیز ہے کیونکہ ان جماعتوں کو ملنے والی حمایت کا تناسب پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں کم ترین ہے۔ اسی طرح اُن کی نمائندگی میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس تبدیلی کی اصل وجہ کیا ہے؟بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جذباتی بندھنوںسے نکل کر حقیقت پسندی کی طر ف جارہا ہے۔ اب لوگ خالی نعروں کی بجائے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لوگ سیاسی جماعتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اُنہیں ووٹ دیتے ہیں لیکن یہ حمایت اندھی اور غیر مشروط نہیںہوتی۔ اب لوگ سیاسی نمائندوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں۔ امکانات کی وسعت بھی ایک تبدیلی کی طرف اہم قدم ہے۔ ملک کی دوبڑی پارٹیوں، پی پی پی اور نون لیگ پر تحریکِ انصاف کا دبائو ہو گا کہ اگر وہ عوامی خواہشات کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو کپتان میدان میں موجود ہے۔ ان انتخابات میں کامیابی کا سہرا تو نواز لیگ کے سر سجا ہے لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک پی ٹی آئی نے جس طرح نوجوانوں کو متاثر کیا ہے، وہ بذات ِ خودتبدیلی کا ایک اشارہ ہے۔