شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے اور انہیں تلف کرنے کے حوالے سے روس اور امریکہ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس نے شام پر امریکی حملے کا منڈلاتا ہوا خطرہ ٹال دیا ہے۔ غیر متوقع طور پر سفارت کاری نے ایک ایسے تصفیے کی راہ ہموار کر دی ہے جسے فریقین نے اطمینان بخش قرار دیا ہے؛ تاہم اس ضمن میں تین سوالات نے سر اٹھایا ہے۔۔۔ ماسکو اور واشنگٹن کو دراصل کس چیز نے ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے؟ کیا اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ اب امریکہ شام میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش نہیں کرے گا؟ کیا دیگر ریاستوں کے لیے یہ طرز عمل ایک مثال بن جائے گا؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے سے پہلے میں اس معاہدے کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں اور اس حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ روس بطور ایک سپر پاور کیا تھا اور اب کیا ہے۔ اس معاہدے میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو ہتھیار ڈالنے، حکم ماننے اور ان میں ناکامی کی صورت میں سخت ایکشن کی یقین دھانی کراتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے آرٹیکل 7 کے تحت پابندیوںکی دھمکی کے ہوتے ہوئے بشارالاسد کے سامنے کیمیائی ہتھیاروںسے دستبردار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ روس اب ویسی مہیب عالمی طاقت نہیں رہا‘ جیسی وہ سوویت دور میں ہوا کرتا تھا۔ روس کے شام اور ایران، جو بشارالاسد کا ایک اور حامی ہے، کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن مشرق وسطیٰ کے معاملات میں وہ کسی بھی حوالے سے امریکہ کے جارحانہ عزائم کو چیلنج نہیںکر سکتا؛ تاہم لیکن اس کے پاس ابھی اتنی سکت اور طاقت ضرور موجود ہے کہ فوجی مداخلت کی صورت میں مزاحمت پیش کر کے امریکیوںکو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے۔ امریکہ اور روس سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں بہت سے معاملات میں اشتراک رکھتے ہیں۔ مشرق و سطیٰ اور وسطی ایشیا میں دونوں کے سامنے اسلامی انتہا پسندوں کا خطرہ موجود ہے۔ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ اسلامی انتہا پسندوں کا خطرہ تھا جس نے ان دونوں کو شام کے معاملے پر مفاہمت پر مجبور کیا کیونکہ بشارالاسد کو ہٹائے جانے کی صورت میں خدشہ تھا کہ بنیاد پرست شام کے اقتدار پر قبضہ کر لیںگے۔ شام کی موجودہ حکومت نسبتاً سیکولر سمجھی جا سکتی ہے؛ چنانچہ بنیاد پرست موجودہ شورش کی آڑ میں اس کا اقتدار ختم کرنا چاہتے تھے۔ دراصل بنیاد پرستی اور اس سے جنم لینے والا معاشرتی انتشار شام اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ روس اور امریکہ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ دونوں ملکوں کے مابین گفت و شنید کی راہ ہموار کرتے ہوئے اُنہیں شام میں حکومت کی تبدیلی پر اپنے اپنے معروضات کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اگلے سال بشارالاسد کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ شام کی حکومت اور اپوزیشن کے ذہن میں بھی یہی تاریخ ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے ان دونوں کے درمیان تصفیے کی کوششیں رائیگاں گئیں لیکن شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں نسل کشی ہو سکتی ہے اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ خدانخواستہ شام میں کسی انسانی المیے نے جنم لیا تو اس سے ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اگر ، جیسا کہ خدشہ ہے، خانہ جنگی میں فرقہ واریت کا پہلو نمایاں ہو گیا تو یہ اس خطے کے لیے بہت بڑی تباہی لائے گا۔ دراصل اس معاہدے نے صدر اوباما کو اپنی عزت بچانے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ وہ بشارالاسد کو ہٹانے لیے شام پر حملے کا حکم دینے ہی والے تھے لیکن اس کے لیے اُنہیں اپنی جماعت کی طرف سے حمایت حاصل نہ تھی۔ ناصرف امریکی عوام نے اس منصوبے کو رد کر دیا بلکہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی اس پیچھے ہٹ گئے حالانکہ یہ ممالک ایسی کارروائیوں میں ہمیشہ امریکہ کے قریبی اتحادی ثابت ہوتے رہے ہیں؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب امریکہ بشارالاسد کی مخالف قوتوں کو تقویت دے کر شام کے معاملات میں مداخلت نہیںکر ے گا۔ اب اس کے ایجنڈے میں یہ ہو گا کہ شام کی لبریشن آرمی کو مسلح کیا جائے اور معتدل مزاج قوتوں کی حمایت کرتے ہوئے بشارالاسد کو ہٹایا جائے۔ اب اس کے پاس یہی پس پردہ رہ کر شام میں مداخلت کرتے رہنے کی پالیسی ہی بچی ہے کیونکہ اس معاہدے کے نتیجے میں براہ راست فوجی مداخلت کا خدشہ دم توڑ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی عالمی سوچ کو الجھن میں ڈالتی ہے کہ براہ راست فوجی مداخلت کرنے سے عراق، افغانستان اور لیبیا میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس سے پہلے عراق اور لیبیا میں اقوام متحدہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے؛ چنانچہ شام میں ایسا کیا جانا کوئی نئی بات نہ ہو گی۔