"RBC" (space) message & send to 7575

قبائلی رسوم و رواج اور عوام

بلوچستان کے کچھ حصوں اور جنوبی پنجاب ، خاص طور پر راجن پور اور ڈیرہ غازی خاں میں قبائلی جرگے کے حکم پر ملزم کو آگ پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی قدیم تاریخ یا کہانی نہیں ہے بلکہ حالیہ دنوں میں بھی راجن پور میں ایک ایسا واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ ملزم کا آگ پر چلنا قبائلی علاقوں میں انصاف کرنے کی ایک شکل ہے۔ جرگے کا تو بس نام ہی ہوتا ہے، دراصل کوئی با اثر قبائلی سردار جج، استغاثہ اور جلاد کے فرائض بیک وقت انجام دیتے ہوئے قتل، چوری یا آبروریزی جیسے سنگین جرائم کے نامزد ملزم کو آگ پر چلنے کا حکم دیتا ہے۔ اس ظالمانہ اور غیر انسانی رسم کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلے میں تین اہم مسائل کا جائزہ لیتا ہوں تاکہ ہم ریاست کے عدالتی نظام کے مساوی چلنے والے جرگوں کی طرف سے فیصلے کرنے کے نظام کو ختم کرسکیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ریاست اور قبائلی نظام کے درمیان کشمکش پائی جاتی ہے ۔ اگرچہ اب قبائلی سرداروں کی قوت کمزور پڑرہی ہے لیکن اب بھی مختلف اضلاع ، جیسا کہ ڈی جی خان اور راجن پور ، میں ریاستی اداروں پر ان کا اثر پایا جاتا ہے۔ بلوچستان اور پشتون علاقوں میں امن و امان کے حوالے سے قبائلی نظام کا تصور اب کمزور پڑرہا ہے۔ تقریباً ملک کے تمام حصوں میں ریاستی ادارے، جیسا کہ پولیس اور عدلیہ ، کام کررہے ہیں۔ چنانچہ قبائلی نظام اور ریاستی نظام کے درمیان دکھائی دینے والی کشمکش فطری بات ہے کیونکہ ایک دم توڑتا ہوا نظام اپنی بقا کے لیے ہر حربہ اختیار کرے گا۔ دنیا میں جہاں بھی سماجی طور پر ترقی دیکھنے میں آئی ہے، پرانے نظام نے اس کے خلاف مزاحمت ضرور کی ہے، چنانچہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہورہا ہے۔ ایک اور بات، تبدیلی کا یہ عمل آسان نہیںہوتا کیونکہ صدیوںسے جاری نظام کو جڑ سے اکھاڑنا دشوار ہوتا ہے۔ اس عمل کو مقامی سرداروں اور ان کے وفاداروںکی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ مزاحمت خونی بھی ہوتی ہے۔ تاہم اس سے یہ مراد نہیں لے لینی چاہیے کہ ہر قبائلی سردار ظالم اور ریاستی نظام کا مخالف ہوتا ہے۔ بہت سے سردار بہت نرم دل، سخی اور منصف مزاج بھی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اُنھوںنے اور ان کے خاندان نے کئی صدیوں سے اپنے علاقوں میں ایک نظام قائم کیا ہوا تھا ۔ ان کے دل میں بھی انسان دوستی کے جذبات ہوتے ہیں۔ تاہم ان کو اپنا اختیار قائم رکھنے کے لیے سختی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جدید ترقی سرداری نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ علاقے میں ہونے والی مادی اور معاشی ترقی میں بھی ان کا کوئی عمل دخل نہیںہوتا، چنانچہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضے ان سرداروں کی اجارہ داری کو زک پہنچاتے ہیں۔ تمام دنیا کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے۔ خطے میں پیش آنے والے بعض اہم واقعات کی وجہ سے آج کا پاکستانی معاشرہ وہ نہیںہے جو بیس سال یا ایک عشرہ پہلے تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہونے والی مادی ترقی کی وجہ سے ایک درمیانہ طبقہ وجود میں آرہا ہے اور یہ طبقہ سرداروں کے تسلط سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ اس تبدیلی کی لہر پنجاب کے سب سے پسماندہ علاقے راجن پور میںبھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قدیم نظام اس تبدیلی کے راستے میں مزاحم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تبدیلی کا عمل اتنا توانا نہیں ہوا کہ وہ صدیوں پرانے نظام اور اس کے ظالمانہ رسوم ورواج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ تیسری بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی فعالیت کے لیے انصاف اور عوامی اداروںکی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بغیر معاشرے نہیں چل سکتے۔ ان کی غیر موجودگی میں مقامی سردار اپنا نظام قائم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب کے کچھ اضلاع، اندرون سندھ ، بلوچستان اور فاٹا میں ریاستی عملداری قدرے کمزور ہے، اگرچہ ہر جگہ صورت ِ حال ایک جیسی نہیںہے۔ چونکہ یہی قبائلی سردار اور جاگیردار اسمبلیوں میں عوام کے نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے وہ اپنے قدیم رسوم ورواج کو اپنی سیاسی طاقت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ انتظامیہ کو اپنی مٹھی میں رکھتے ہیں۔ ریاست کی عملداری ان کے منشاکے مطابق ہوتی ہے۔ہمارے مخصوص سیاسی ڈھانچے کی وجہ سے وزیر ِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ ان منتخب شدہ سرداروں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ چنانچہ وہ اپنے علاقوںمیں من مانی کرنے کے لیے آزادہوتے ہیں۔ اب اس صورت ِ حال کا تدارک کیسے کیا جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور بہتر ریاستی نظم و نسق سے ان سرداروں کے اثر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کے لیے فلاحی کام اور معاشی ترقی ان کو صدیوں کے بندھنوں سے آزاد کرانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومت کو عوام تک رسائی حاصل کرنا ہوگی تاکہ وہ ایک خاموش سماجی انقلاب کی طرف بڑھ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں