دیگر کالمز
رؤف کلاسرا
"RBC" (space) message & send to 7575

طالبان کے ساتھ مذاکرات

میں اس خیال سے اتفاق نہیںکرتا کہ طالبان سے مذاکرات نہیںہونے چاہئیں اور یہ کہ ا ن کے خلاف طاقت کا استعمال ہی واحد راستہ ہے۔درحقیقت اس بات میںکوئی منطق نہیںہے اور اس مسئلے کا فوجی حل تجویز کرنے کے پیچھے صرف انتہاپسندوں اور ان کے سخت گیر نظریات اور ان کے بے لچک مذہبی تصورات سے نفرت کارفرما ہے۔ میں ایسا کیوں کہتا ہوں؟وہ لوگ جو طالبان سے مذاکرا ت کی نفی کرتے ہیںوہ بھی کسی دلیل کی بجائے نسلی بنیاد پر انتہا پسندوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کو ہر صورت میں فوجی قوت سے کچل دیا جائے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیںہے کہ ڈائیلاگ یا طاقت کا استعمال کرنے سے شورش پسندی کی آگ بُجھ جائے گی۔ دراصل شورش پسندی اچانک پھُوٹ پڑنے والے فسادات کی طرح راتوں رات رونما نہیںہوتی، بلکہ طویل عرصے تک سلگتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اس کی درپردہ تنظیم سازی ہوتی رہتی ہے، قائدین سامنے آتے ہیں اور پھر ان کے اندرونی اور بیرونی روابط تشکیل پاتے ہیں۔ چنانچہ ان کو راتوں رات شکست دینا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان جیسی کوئی ریاست کسی ایک پالیسی کے تحت اس پر قابو نہیں پا سکتی۔ کئی ممالک نے عشروں تک انتہاپسندوںسے جنگ لڑی ہے، جیسا کہ سری لنکا نے تامل ٹائیگرز سے اور برطانیہ نے ’’آئی آر اے‘‘ ( آئرش ری پبلکن آرمی) سے۔ ریاستوں کو فوجی بالادستی رکھنے کے باوجود مذاکرات کی میز پر ہی معاملات طے کرنے پڑے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو طالبان یا ان کے کچھ گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کو ’’ہتھیار ڈالنے ‘‘ کے مترادف قرار دینا درست سوچ نہیں۔ پاکستان ہی نہیں‘ کوئی بھی ریاست اس صورت ِ حال سے دوچار ہوتی تو اس کے پاس اس بات کی ضمانت نہ ہوتی کہ طاقت کا استعمال معاملے کو حل کر دے گا۔ جنگ اورسیاست شورش پسندی سے نمٹنے کے لیے دو پہلو ہیں۔ ان دونوں کو الگ کرکے دیکھنا یا یہ کہنا کہ جب تک دشمن کو فوجی طاقت سے کمزور نہ کر لیا جائے، اُس سے مذاکرات نہیںکیے جا سکتے، تاریخی اور منطقی اعتبار سے غلط سوچ ہے۔ اس کے علاوہ مذاکرات یا کسی منطق کی نفی کرنے والا گروہ ایک بے بنیاد مفروضے پر بات کررہا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ طالبان مذہبی جنونی ہیں اور ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ ریاست ِ پاکستان پر قبضہ کرکے اپنا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ ان سے بات کرنا صحراکی ریت چھاننے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے تاریخ ہمیں کسی ایسی ریاست کے بارے میں نہیںبتاتی جہاں انتہاپسندوں، مذہبی جنگجوئوں اور نسل پرستوں کے ساتھ مذاکرات کی اتنی مخالفت کی گئی ہو جتنی پاکستان میں کی جارہی ہے۔ جب میں طالبان سے مذاکرات کی وکالت کرتا ہوں تو میری بات کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں طاقت کے استعمال کو غلط سمجھتا ہوں ۔ ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال کا آپشن پس ِ منظر میں ایک دھمکی کے طور پر موجود رہنا چاہیے تاکہ دوسرا گروہ یہ نہ سمجھ لے کہ ریاست بے اختیار ہے اور وہ اپنی کوئی بھی بات منوا سکتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات پر گزشتہ دنوں ہونے والا پارلیمانی اتفاق ِ رائے یہ نہیںکہتا کہ ان کے خلاف طاقت استعمال نہیںکی جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم طالبان سے بات کرنے جارہے ہیں تو ہمارے پاس کھیلنے کے لیے کیسے پتے دستیاب ہیں۔ یہ طرفین کے لیے بہتر ہے کہ اس مسئلے کاکوئی پُرامن حل نکل آئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پر یہ حقیقت بھی آشکار ہو کہ ریاست آئین، اپنی خودمختاری‘ جمہوریت اور سماجی قدروں پر کوئی سمجھوتہ نہیںکرے گی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ریاست انتہا پسندوں کے مقابلے میں کمزوری دکھاتے ہوئے مذاکرات نہیںکر سکتی۔ اگر ایسا ہوتا ہے توپھر وہ اپنے وجود کا جواز کھو دے گی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ طالبان مذکرات کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں، تو اس پر مختلف آراء دی جاسکتی ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ مذاکرات کون کررہا ہے اور کن سے کر رہا ہے۔ طالبان، جوانتہا پسند تنظیموں کی طرح عملی اور جارحانہ عزائم رکھتے ہیں، کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیںہونا چاہیے۔ حکومت مذاکرات کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ہر صورت ِ حال کا سامنا بھی کرسکتی ہے۔ جہاں یہ طویل مذاکرات کے لیے تیار ہے، وہیں یہ طویل جنگ کا گھائو بھی برداشت کر سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں