"RBC" (space) message & send to 7575

عوام میں جمہوریت کی عدم مقبولیت

نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والے تمام معاشروں کو ریاستی اداروں کے قیام اور قوم سازی کے عمل کے حوالے سے بہت سے بنیادی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ قانون سازی کے عمل کو درست بنیاد کیسے فراہم کی جائے اور قانون سازی کرنے والوںکو قانون کے دائرے میںکیسے لایا جائے؟ باالفاظ ِ دیگر ، ایک اچھی ریاست کے قیام کا دارومدار معاشرے اور ریاستی اداروںکے باہمی تعلق اور ان کی ایک دوسرے کے لیے روا رکھی جانے والی حمایت پر ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ جو لوگ اقتدار میںہوتے ہیں، وہ عوام الناس کو خاطر میں نہیںلاتے ۔ وہ اکثر جابرانہ ہتھکنڈے اپناتے ہوئے اُن کا استیصال کرتے ہیں۔ وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ عوام کو جتنا دبا کر رکھیںگے، اُن کا اقتدار اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ اس لیے حکومت سنبھالتے ہی وہ عوام کو خود سے دور رکھنے کے جتن شروع کردیتے ہیں۔ اس سے ریاستی ادارے آمرانہ روش اختیار کرلیتے ہیں اور عوام بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ریاست میں ان کا کوئی اسٹیک نہیںہے اور یہ کہ سیاست دانوں نے انہیں صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، یہاں تک کہ کوئی اور طالع آزما آ کر اُن کے جذبات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ یہ محض کوئی کتابی نظریہ نہیں بلکہ ہمارے ہاں گزشتہ چھ عشروںسے دہرائی جانے والی تاریخ ہے۔
جب کسی ملک میں ریاست اور معاشرے کا تعلق قائم ہوجاتا ہے، چاہے یہ تعلق صرف آئینی اصولوں کے تحت ہی کیوںنہ ہو، تو وہ ملک پیدا ہونے والے سیاسی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہ آئینی اصول، جو معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق پیدا کرتا ہے ، جمہوریت کہلاتا ہے۔ ایک نوخیز معاشرے میں یہ اصول پیدا کرنا پڑتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ، جب یہ معاشرہ اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے میچور ہوجاتا ہے تو یہ معروضی اصول اُس معاشرے کی روایات اور ثقافت کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ اس کے بعد جمہوری عمل عوام اور ریاستی اداروں کی فعالیت کا روح و رواں بن جاتا ہے۔ 
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے بھی ریاست اور معاشرے کے درمیان تعلق پیدا کرنے کا گمبھیر چیلنج درپیش ہے۔ اس الجھن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے قیام کے بعد یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے بہت سے عوامل نے جمہوری عمل کی بیخ کنی کرنا شروع کر دی۔۔۔ بلکہ یوں کہہ لیںکہ جمہوریت کا قتل کردیا۔ملک پر قابض غیر جمہوری قوتوں کی وجہ سے فوج اور اس کے نام نہاد مذہبی اور سیاسی حامیوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کردیا کہ کیا جمہوریت پاکستانی معاشرے کے لیے موزوںہے، یا کیا پاکستانی معاشرہ جمہوریت کے لیے ساز گار ہے ؟جمہوریت کو مغربیت سے تعبیر کیا گیا اور اس کو اپنے عقیدہ سے متصادم بھی قرار دیا گیا۔ ابھی بھی کچھ حلقوںکی طرف سے ا س بات کا اعادہ کیا جاتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ دنیا کے دیگر معاشروںمیں بھی غیر جمہوری عناصر اسی طرح کے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ دراصل ان عناصر کو بلاروک ٹوک اختیار قائم کرنے (رکھنے) کے لیے جمہوریت، جو کہ عوام کی بالا دستی کو یقینی بناتی ہے، کو متنازعہ 
بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف اس یک طرفہ جنگ میں فوجی حکمرانوںاور ان کے حواریوں نے میڈیا کو، جو اُس وقت ان کے کنٹرول میں تھا، استعمال کرتے ہوئے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کے لیے مغربی جمہوریت اپنانا درست راستہ نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ برس ہابرس کی برین واشنگ کے بعد عوامی سطح پر جمہوریت کی مقبولیت بہت کم ہے، اگرچہ یہاں کئی ایک سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں اور وہ جمہوریت میں اپنا مفاد بھی دیکھتی ہیں۔ اگر ملک میں جمہوریت کی جڑیں اتنی کمزور نہ ہوتیں تو فوجی حکمران چار مرتبہ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹتے ہوئے تین عشروں تک ملک پرحکومت کرنے کی جسارت نہ کرتے اور آج ملک کے سیاسی اور جمہوری خدوخال بہت مختلف ہوتے۔ 
آج کی دنیا میں کئی ممالک اچھے برے تجربات سے گزرتے ہوئے جمہوریت کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ تمام ریاستوں کو کسی نہ کسی سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید دنیامیں سب سے موثر اور فعال سیاسی نظام جمہوریت ہی ہے۔ سابق برطانوی وزیر ِ اعظم سر ونسٹن چرچل کا کہنا ہے کہ ''جمہوریت کے تمام متبادل بدترین ہیں‘‘۔کسی سیاسی نظام، جیسا کہ جمہوریت، کو ایک ریاست کے آئینی ڈھانچے میں وہی حیثیت حاصل ہورہی ہے جو ایک کمپیوٹرمیں سافٹ ویئر کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر ''سافٹ ویئر‘‘ اچھا ہو گا تو سسٹم اچھا کام کرے گا، ناقص ہوگا تو خرابیوں کا شکار رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ریاست کی اچھی فعالیت کا دارومدار اس کے وسائل پر نہیں، بلکہ وہاں رائج سیاسی نظام پر ہوتا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سی ریاستیں، جو زیادہ وسائل نہیں بھی رکھتیں، صرف اچھے جمہوری نظام کی وجہ سے ترقی کی راہ پر گامز ن ہیں۔ 
گزشتہ انتخابات میںملک میںچوتھی مرتبہ پر امن انتقال ِ اقتدارکا مرحلہ طے پایا۔۔۔ حالانکہ ان چھ عشروں میں ایک درجن سے زائد مرتبہ ایسا ہو جانا چاہیے تھا۔ گزشتہ حکومت پہلی جمہوری حکومت تھی‘ جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ ہنوز عوام کے دل میں جمہوری عمل کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کا علم بلند کرنے والوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ میں ان میں سے دو کا بطور ِ خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ جمہوریت کے لیے سب سے پہلا چیلنج یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت، چاہے وہ فوجی حکومت کے حق میں نہ بھی ہوں، فوج کو سب اداروں سے زیادہ مقدم سمجھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ طویل فوجی حکومت بھی ہے اور ہمارے مخصوص جغرافیائی حالات بھی۔ گیلپ‘ PEW اور دیگر تنظیموں کی طرف سے کئے گئے عوامی جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ دس میں سے آٹھ پاکستانی ملک پر فوج کے اثر کو ضروری سمجھتے ہیں۔ گزشتہ نصف دہائی سے مختلف اوقات میں لیے جانے والے سروے ان اعدادوشمار کی تائید کرتے ہیں۔ دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ اس کا تعلق اٹھارہ سے انتیس سال کے پاکستانی نوجوانوں کے پسندیدہ نظام ِ حکومت سے ہے۔ اس سال برٹش کونسل نے جب پاکستانی نوجوانوں سے پوچھا کہ وہ کون سا نظام ِ حکومت بہتر سمجھتے ہیں تو اُن میںسے صرف تئیس فیصد نے جمہوریت کے حق میں فیصلہ دیا۔ ان میں سے انتیس فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بہترین نظام ہے لیکن وہ اسے پاکستان کے لیے موزوں نہیں سمجھتے ۔ مزید پریشان کن صورت ِ حال یہ ہے کہ اڑتیس فیصد نوجوان فوجی حکومت جبکہ بتیس فیصد اسلامی شریعت کے نفاذ کے حق میںہیں۔ اس طرح پاکستانی نوجوانوں کی ترجیح میں جمہوریت کا مقام بہت پست ہے۔ 
اس میںکوئی شک نہیں کہ کئی عشروں تک جمہوریت کے خلاف چلنے والی مہم کا انجام اس سے مختلف نہیںہوسکتا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور سیاسی رہنمائوں کی لوٹ مار کی داستانیں، جن میں صرف مبالغہ آرائی ہی نہیںہوتی، بھی جمہوریت کو عوامی مقبولیت کے گراف گرا نے کا موجب بنتی ہیں۔ جمہوریت صرف اسی صورت میں قابل ِ قبول او ر توانا ہو سکے گی جب یہ عام آدمی کو فائدہ پہنچائے گی۔ اربابِ اختیار کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جب وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو جمہوریت کی ترقی کو نظر انداز نہ کیا کریں۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ وہ عشروں تک کی گئی برین واشنگ کا توڑ کرسکتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں