عمل اور محنت کی مساوات پر قائم اس دنیا میں افراد کے پاس ذاتی ترقی کرنے کے لیے بہت کم شارٹ کٹ ہوتے ہیں اور اقوام کے لیے، خاص طور پر اُن قوموں کے لیے جو پاکستان جیسے حالات سے دوچار ہوں، ہرگز کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ ترقی کا دارومداراچھے تصورات اور واضح نصب العین، نہ کہ سیاسی نعروں، پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد محنت اور لگن کا، جو تصورات کو عملی شکل دیتے ہیں، مرحلہ آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تصورات، لگن اور محنت کے بغیر افراد کے لیے ترقی ممکن نہیں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب افراد ہی جادۂ زیست اپناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور اس میں بسنے والے افراد پر بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔
افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی ترقی کا دارومدار سماجی حرکیات اور سیاسی عوامل پر ہے۔ اگر حکومت کی طر ف سے درست معاشی اور سماجی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور قومی سوچ کو راسخ کیا جاتا ہے تو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے آج پاکستان میں ان میں سے کچھ سماجی حرکیات کی، جو کسی معاشرے کو ترقی کی شاہراہ پر گامز ن کر سکتی ہیں، جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک‘ آزاد اور جاندار میڈیا ہے جو قومی سوچ کو اجاگر کررہا ہے اور دوسری ملک کے کونے کونے میں اپنا وجود رکھنے والی سول سوسائٹی کی تنظیمیں ہیں۔ یہ تنظیمیں عوام کو اکائیوں کی صورت میں ترقی کے دھارے سے مربوط کر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دیوان خانوں میں بیٹھے ہوئے دانشوروں کو یہ فعالیت دکھائی نہ دیتی ہو لیکن بادی النظر میں بھی یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی بھی پاکستانی معاشرے کے ڈھانچہ کو نقصان نہیں پہنچا سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ قبائلی معاشروں کے برعکس پاکستانی قوم اشتراک ِ عمل پر یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
ان سماجی اور سیاسی حرکیات نے بہت سے میدانوں میں تبدیلی کے آثار پیدا کردیے ہیں ۔ میری نظر میں‘ اس میں سے سب سے اہم تبدیلی‘ آزادی اور عوامی شعور کو تقویت ملنا ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں ہر شخص سماجی مسائل سے آزاد ہے۔ ایسا تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہے لیکن ماضی کی نسبت آج عوامی شعور اور آگے بڑھنے کی لگن پہلے سے زیادہ ہے۔ سماجی سطح پر ہونے والی تبدیلی اور ترقی عوام کو تحریک دیتی ہے۔ وہ وسیع تر تصورات اپناتے ہوئے مثبت اور ترقی پسند فکر و عمل کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ہم جانتے ہیںکہ میڈیا اور سول سوسائٹی کے بہت سے پہلوئوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں ان کے مثبت پہلوئوں کو بھی نظر انداز نہیںکرنا چاہیے۔ ان کی وجہ سے ہی آج عام شہری کی زندگی بہتر ی کی طرف گامزن ہے یا کم از کم انھوںنے شہریوں میں بہتر زندگی کا شعور بیدار کر دیا ہے۔ بہت سے نقاد حضرات کو میڈیا کا کوئی نہ کوئی ''ایجنڈا‘‘ دکھائی دیتا رہتا ہے۔ اسی طرح وہ سول سوسائٹی کو بھی ''اقدار ‘‘ (پتہ نہیںکون سی؟) کی معکوس راہوں پر گامزن دیکھتے ہیں لیکن کیا وہ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ آج کا پاکستانی معاشرہ وہ نہیںہے جو دو دہائیاں پہلے تھا۔ آج کے عام پاکستانی کی سوچ دقیانوسی ہر گز نہیں ہے۔ اگر اس کے طرز ِعمل میں کبھی مایوسی کی جھلک بھی ملتی ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ کچھ توقع رکھتا تھا لیکن وہ پوری نہیں ہوپارہی۔ اس کا مطلب ہے کہ مایوس بھی وہی ہوتا ہے کہ جسے کوئی امیدہوتی ہے۔ چنانچہ اس بات سے انکار کرنا محال ہے کہ ہمار ا معاشرہ تبدیلی کی راہوں پر گامز ن ہے۔
سماجی ترقی کی ایک اور قسم ہے جسے غیر اہم قرار دے کر رد نہیںکیا جا سکتا‘ یہ تعلیم ، بلکہ بہتر تعلیم، حاصل کرنے کے لیے بیدار ہونے والا شعور ہے۔ اس کی تحریک ملک کے خاص طور پر شہروں اوران کے مضافاتی علاقوںمیں بہت واضح ہے۔ حتیٰ کہ غریب خاندان بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ ان سکولوں کی فیس سرکاری سکولوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن والدین کسی نہ کسی طریقے سے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ جب کوئی خاندان تعلیم کی اہمیت کا احساس کرنے کے قابل ہوجاتا ہے تو تبدیلی اور ترقی اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ یہ بات بھی بہت متاثر کن ہے کہ ملک کے کونے کونے میں مختلف فلاحی تنظیموں کی طرف سے مفت تعلیم دینے کو بھی بہت پذیرائی حاصل ہے۔ان تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے افراد ان کی فعالیت پر یقین رکھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے مبصرین کا ایک مخصوص دھڑا صورت ِ حال کے صرف منفی پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے، اس لیے ہمیں اپنے ارد گرد اندھیرا دکھائی دیتا ہے اور ہمیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور تشدد کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس میںکوئی شک نہیںہے کہ سرکاری تعلیمی اداروںکی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے لیکن پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس خلیج کو پوراکرنے کی سعی کررہے ہیں۔
درحقیقت تعلیم کا فروغ سماجی ترقی کی کنجی ہے۔ اس کے بغیر میڈیا اور سول سوسائٹی میں ہونے والی حرکیات بھی لاحاصل رہتی ہیں۔ علمی سرگرمیوں کا فروغ معاشرہ کی ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قائم ہونے والی یکے بعد دیگرے بہت سی حکومتوں نے، چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، اس اہم ترین شعبے کی طرف توجہ نہیںدی۔ اب تک کسی حکومت نے تعلیم کے فروغ کو اپنا مرکزی ایجنڈا قرار نہیں دیا۔ اس شعبے کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ہنوز جاری ہے۔ محض اشک شوئی کی خاطر، نیم دلی سے کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن ان سے وسائل اوروقت کے زیاں کے علاوہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں سماجی ترقی کے لیے درکار تعلیم کے فروغ کے راستے میں تین بنیادی رکاوٹیں ہیں۔پہلی رکاوٹ کسی جامع اور مربوط تعلیمی پالیسی کا فقدان ہے۔ اب تک کوئی حکومت اس بات کا فہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ ہمارے نوجوانوں کو کس طرح کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ دوسری رکاوٹ ملک کے بہت سے حصوں میں رائج قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے۔ اس نظام میں تعلیم یافتہ اور ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے شہریوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام سے مستفید ہونے والا طبقہ تعلیم کے ذریعے آنے والی تبدیلیوں کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ تیسری رکاوٹ محکمۂ تعلیم کے افسران کی بدعنوانی اور نااہلی ہے۔ اگر ہم یہ رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سماجی ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر ملک میں موبائل فون، لیپ ٹاپ اور گاڑی کی عدم دستیابی ترقی کی ضمانت نہیں ہے۔