"RBC" (space) message & send to 7575

پاکستان ناکام کیوں ہے؟

پاکستان میں امیر سے لے کر غریب افراد تک، ہر کسی کی زبان پر یہی جملہ ہوتا ہے کہ یہ نظام ناکام ہوچکا ہے۔ کئی عشروں سے بولا جانے والا یہ جملہ ایسا سچ لگتا ہے جس کی مخالفت میں دی جانے والی ہر قسم کی دلیل باطل دکھائی دیتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت کرنا آسان کام نہیں۔ اس کے خلاف کچھ بھی کہہ لیں، اسے فوری طور پر دوٹوک اندا ز میں رد کردیا جائے گا۔ میں کسی اور وقت پاکستان کی کامیابی، جن کا ذکر میںکئی عشروںسے کررہا ہوں، کی کہانی سنائوں گا لیکن اس وقت میں قارئین کے سامنے ناکامیوں پر کچھ سوال اٹھانا چاہتاہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے بلکہ اس کا نظام ناکامی سے دوچار ہورہا ہے۔ 
پاکستان میں موجود نظام کی ناکامیوں کی بہت ٹھوس وجوہ ہیںجنہیں کوئی احتجاج کرنے والا یا سماجی اور سیاسی نظام کی اصلاح کا دعویدار نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ملک کے ہر حصے میں رہنے والے لوگ پریشان، ناخوش اور متفکر ہیں۔ ایک سرسری جائزہ بھی ہماری چار بڑی ناکامیاں آشکار کردیتا ہے۔ یہ ناکامیاں ہر سرکاری محکمے میں ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی، ماتحت عدلیہ میں قانون کی پامالی، سماجی ترقی اور سہولیات کا فقدان اور حکومت کی سکڑتی ہوئی عملداری ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر عوام مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ ریاستی اتھارٹی سے نہ کوئی امید رکھتے ہیںاور نہ ہی اس کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف افراتفری اور انارکی دکھائی دیتی ہے۔ 
یہ تمام ناکامیاں ایک بڑے اور پیچیدہ مسئلے کی وجہ سے ہیں۔ کوئی بھی ناکامیوں کی طویل، مختصر یا اس سے مختلف فہرست مرتب کرسکتا ہے ۔ ہمارے ہاںیہ ایک آسان بات ہے، تاہم میرا خیال ہے کہ پاکستان اُس وقت تک ان مسائل سے جان چھڑا کر ترقی کی راہ پر قدم نہیںرکھ سکتا جب تک ہم ذہنی اور سیاسی طور پران ناکامیوں کی تفہیم نہ کریں اور پھر اس تفہیم کی روشنی میں حقیقی اصلاحات اور ریاستی اداروں میں ضروری تبدیلی لائی جائیں۔تاہم ایک سوال اپنی جگہ پر برقراررہتا ہے کہ اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا بیرونی انقلاب اس معاملے کو درست کرے گا یا یہ نظام اندرونی اصلاح کی طرف جاسکتا ہے؟
اس وقت پاکستان میں ''بدعنوان ‘‘ نظام کے خلاف دھرنے اور احتجاج جاری ہیں۔ کپتان اس نظام کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف ''آزادی مارچ‘‘ میں مصروف ہے۔ وہ موجودہ سیاسی حکومت پر یقین نہیں رکھتے ، اس لیے وہ تمام نظام کی تطہیر چاہتے ہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ کوئی ان کے اس نظام سے ناامید ہو کرنوجوانوں کو سڑکوں پر لے آنے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرے، لیکن یہ احتجاج مکمل ناامیدی کا شاخسانہ نہیں ہے۔ جب ہم 1973 ء کے آئین کی بنیاد پر قائم ہونے والے ڈھانچے کودیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ غیر فعال ہوچکا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بدعنوان اور مفاد پرستی پر مبنی نظام قائم ہوچکا ہے۔ اراکین ِ اسمبلی ، جو صوبائی اور وفاقی حکمرانوں کو منتخب کرتے ہیں، کو سیاسی اثر و رسوخ درکار ہوتا ہے تاکہ وہ انتظامیہ کو کنٹرول کرکے من پسند کام کرسکیں اور اُنہیںبھاری بھرکم فنڈز بھی فراہم کیے جائیں۔ وہ اعلیٰ سرکاری افسران کے تعاون سے عوامی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ 
دوسری ناکامی یہ ہے کہ ریاست کی افسرشاہی سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے غیر جانبدار نہیں ۔یہ آئین کی بجائے حکمرانوں کی اطاعت کرتی ہے۔ اس میں صرف انتظامیہ اور پولیس ہی شامل نہیں بلکہ ہر محکمہ ایسی ہی خرابیوں کا شاہکار ہے۔ جب فوجی یا سیاسی حکومت اقتدار ہوتی ہے تو وہ اس انتظامیہ کو اپنے مفاد اور اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے بے رحمی سے استعمال کرتی ہے۔سرکاری محکموں میںہونے والی تقرریاں یا تبادلے قواعدو ضوابط یا استحقاق کے مطابق نہیں بلکہ اس شخص کے سیاسی روابط کی بنیاد پرہوتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے، یا اسے منظر سے ہٹا کر، سیاسی مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ افسر شاہی کو حکمران سیاسی جماعت کے ماتحت کرنے سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر محکمے کو بدعنوانی کا دیمک چاٹ رہا ہے۔ 
تیسری خرابی یہ ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ یہ بذاتِ خود ایک ''کارپوریٹ ادارہ‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ ہر سرکاری محکمے میں اوپر سے لے کر نیچے تک، بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں کہ کام کرنے کے عوض سرکاری ملازم عوام سے رقم طلب کرتے ہیں یا محکموں کی طرف سے کیے جانے والے ترقی کے منصوبوںسے مال بنایا جاتا ہے، بلکہ بدعنوانی کا دائرہ کار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس کا مکمل احاطہ ایک کالم کرنے سے قاصر ہے، لیکن سرکاری محکموں کی فعالیت کا ایک سرسری ساجائزہ بھی ان میں ہونے والی بدعنوانی کا پول کھول دیتا ہے۔ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب حکمران کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے تعین کے لیے کوئی کمیشن قائم کیا جارہا ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں سزا اورجزا کی کوئی روایت نہیں، اس لیے سب اس گنگا میں بے خوف ہوکر ہاتھ دھوتے ہیں۔ 
ان ناکامیوں کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں اخلاقی قدریں اور دیانت داری دم توڑ چکی ہیں۔ بہت کم افراد اپنے وسائل میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک او ر بات، بدعنوانی صرف سرکاری محکموں تک ہی محدود نہیں بلکہ نجی شعبہ بھی اس کی زد میںہے۔ میڈیا اور پرائیویٹ کمپنیاںہر حربہ استعمال کرکے پیسہ کمانے کی کوشش میں ہیں۔ بدعنوانی صرف سرکاری عہدے سے فائدہ اٹھا کر رشوت لینا ہی نہیں بلکہ اپنی حیثیت، چاہے آپ صحافی ہیں، اپوزیشن لیڈر ہیں، کوئی عالم ِ دین ہیں، کوئی دوکاندار ہیں، سے ناجائز فائدہ اٹھانابھی بدعنوانی ہے۔ اس تمام ہڑبونگ میں قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کوئی ریاستی ادارہ اتنا توانا نہیں کہ وہ طاقتور اور بااثر افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ اس نظام کی اصلاح کا تصور دم توڑ رہا ہے اور لوگ کسی انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ افسوس ناک لیکن سچی حقیقت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں