جمہوریت سے بہتر کوئی نظام ِحکومت موجود نہیں۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے ذریعے آئین کے مطابق ایک نمائندہ حکومت وجود میں آتی ہے، بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ یہ شہری حقوق، شخصی آزادی ، تحفظ اور احتساب کی روایات کی امین ہے۔ جمہوریت کے بغیر معاشرہ تو وجود میں آسکتا ہے، مہذب معاشرہ نہیں۔ درحقیقت جمہوریت کو صرف مغربی طرز ِ حکمرانی کا لیبل لگادینا درست نہیں، بلکہ تمام قوموں نے اس کی تشکیل ، ترقی اور ترویج میں کسی نہ کسی مرحلے پر کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالا ہے؛ تاہم آج کل اسے مغرب اس لے منسوب کردیا گیا ہے کیونکہ یہ مغربی ممالک میںمضبوط اقدار کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ دیگر جمہوریتوں سے مختلف نہیں ہے۔ اگرچہ سول اور فوجی آمروں نے اسے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن یہ اپنا بچائو کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کا سب سے اچھا پہلو یہی ہے کہ یہ قوت ِ برداشت رکھتی ہے۔ تمام تر حملوں اور نامساعد حالات میں بھی اس کی جڑیں مردہ نہیں ہوتیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ پیہم ناکامیوں کے باوجود اگراس کا عمل جاری رہے توا س کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس آمریت وقت گزرنے کے ساتھ مزید آلودہ ہوجاتی ہے۔
جمہوریت جہاں بہت سی خوبیاں رکھتی ہے،یہ منفی پہلوئوں سے بھی مبرّا نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جہاں جمہوریت کے نام پر شخصیت پرستی اور خاندانی حکومت کارواج ہے۔ یہاں جمہوریت بدعنوانی ، اقربا پروری اور استیصالی رویوں کا تحفظ کرتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید خرابیاں واضح ہوتی جارہی ہیں۔ ان خرابیوں کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ، چاہے محدو د پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو، اسے اپنا بنیادی وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ یہ وعدہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد، قانون کی حکمرانی ۔۔۔تمام شہریوں کا قانون کی نگاہ میں برابر ہونا۔۔۔شہری سہولیات اور انصاف کی فراہمی ہے۔ ہر جمہوریت میں جہاں لوگ اپنی حکومت کا انتخاب کرتے ہیں،عوام کی توقعات اور حکمرانوں کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے ہاں ہونے والی تبدیلیوں کو دیگر معاشروںمیں بپا ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے جمہوری نظام اور اداروں کی بہتری کی گنجائش اور توقع رکھی جاتی ہے۔ اس میں جمہور کا مطلب تنزلی کے سوا اور کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ عشروںسے یہی جمود پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایسا کیو ں ہے؟یہاں جمہوری حکمرانوں کی ذاتی خوبیاں (یا خامیاں؟)اور ناقص کارکردگی کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ریاست کے وسائل میں اضافہ او رمسائل میں کمی لائے بغیر انتخابات کے موقع پر دل خوش کن وعدے کرلیے جاتے ہیں۔ شاید اس سے بھی زیادہ یہ کہ رہنمائوں کا دل اور اُن کی سوچ عوام کے ساتھ نہیں ہوتی، وہ جمہوریت کی آڑ میں اپنے مفاد ات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ کئی عشروں سے اب تک وہ عوام کو نہ اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں یا ان کے مسائل کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم آج ایک اچھی پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی بیداری کی لہر دکھائی دے رہی ہے۔ اس میں جاندار میڈیا اور ایک سیاسی جماعت کی طرف سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں روایتی سیاسی معروضات ہمیشہ کے لیے تبدیل ہونے جارہے ہیں۔کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس احتجاج سے اُنہیں کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا قطعی جواب دینا تو مشکل ہے لیکن وہ مستقبل میں پیش آنے والے امکانات پر نگاہ رکھیں اور یقین کرلیں کہ حقیقی جمہوریت ہی ان کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ فی الحال معاشرے کے کچھ طبقے جمہوریت سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال حلقے بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ جمہوریت وہ جمہوریت نہیں جس کا تصور ان کے دل میں موجود ہے ، یا وہ جسے پنپتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم موجودہ حکمرانوں کو گزشتہ تین ادوارسے جانتے ہیں۔ اسے عامیانہ زبان میں ''باریاں لینا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور بیانیہ کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ دونوں اہم جماعتوںکی طرف سے جمہوریت کی مسخ شدہ شکل پیش کی گئی ۔ا س سے عوام کا مایوس ہونا فطری امر تھا کیونکہ دیکھنے میں آیا کہ نام نہاد جمہوری حکمران عوامی وسائل کو بے دردی سے اپنے استعمال میں لا کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہے۔ انھوں نے دولت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقہ ٔ انتخاب کو اپنی گرفت سے آزاد نہیں ہونے دیا۔ اس طرح د ولت اور قوت سیاست میں فیصلہ کن عوامل بن کر سامنے آئے۔ اسی بات نے تعلیم یافتہ اور پیشہ ور درمیانے طبقے کو مایوس کردیا۔ اگر چہ ہمارے روایتی سیاست دان اصل جمہوری قدروں سے نابلد نہیں لیکن اُنھوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی۔
ہمارے ہاں جمہوریت کی اتنی بے قدری کیوں ہے؟کیا ہمارے سیاسی کلچر میں کسی چیز کی کمی ہے جو پیہم تجربات بھی اسے بہتری کی راہ پر گامزن نہ کرپائے؟دراصل ہماری جمہوریت میں جس چیز کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ ذمہ داری کا احساس ہے۔ تمام خرابیوں کا نادیدہ طاقتوں پر الزام لگاکر بری الذمہ ہواجاتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی طاقت، سیاسی جماعت او ر لیڈر اُس وقت جمہوری رویوں کا مظاہرے نہیں کرتے جب تک عوام اُنہیں چیلنج نہ کریں۔ ہمارے ہاں عوام کی طرف سے چیلنج پیش نہیں کیا جاتا، یہ سب کچھ بے بنیاد الزام تراشی کی نذر ہوجاتا ہے، اس لیے ہم بہتری کی طرف قدم نہیں بڑھا سکے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی بہتات کی بجائے شہریوں کے گروہ اور تنظیمیں ہوں جو سیاست دانوں سے جواب طلبی کریں۔ کسی معاشرے میں شہریوں کی تنظیم کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو وہاں کے مقامی سیاست دانوں کے لیے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جب ہمارے عوام فرقہ واریت، نسلی گروہ بندیوں اور لسانیات سے بالا تر ہو کر ایسی تنظیم سازی کی طرف بڑھیں گے، ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر بہتری کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ اس کے بغیر الزامات ہی سیاسی خدوخال کو واضح کریں گے لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔