دیگر کالمز
رؤف کلاسرا
"RBC" (space) message & send to 7575

زنجیروں میں جکڑا ہوا جمہوری نظام

جمہوریت اور آمریت دو مختلف سیاسی نظام ہیں۔ جمہوریت ایک وسیع اور غیر محدود نظام ہے‘ جس میں تبدیلی کا راستہ کھلارہتا ہے ۔ دوسری طرف آمریت اور بادشاہت میں تبدیلی اور شراکت ِاقتدار کی راہیں محدود ، بلکہ مسدود ہوتی ہیں۔ آمریت میں عوام کی رائے شامل نہیں ہوتی‘ نہ ہی وہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی جسارت کرتے ہیں۔ جب اس نظام کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اسے دبانے کے لیے جبر و تشدد سے کام لیتا ہے؛ تاہم یہ دونوں نظام انتہائی نظام اچھے اور برے، دونوں قسم کے شیڈز رکھتے ہیں۔ دونوں انتہائی مثبت اور انتہائی منفی رویوں کے حامل ہیں۔ 
پاکستان کی ڈگمگاتی ہوئی جمہوریت بہت سے جمہوری خدوخال رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، اس کا دامن آمریت کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ جب آزادی ِ اظہارکی بات ہو، کسی عقیدے یا نظریے کو اپنانے کے حق کی بات ہو، سیاسی شراکت اور بنیادی حقوق کی بات ہو تو ہماری جمہوریت کچھ توانائی کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ مغربی ممالک کے پیمانے پر نہیں، لیکن اگر اس کا دیگر مسلم معاشروںسے موازنہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آزاد ترین نظام رکھتا ہے۔ یہ ایک اچھی اور حوصلہ افزا بات ہے؛ تاہم ایک جمہوری معاشرے کی ترقی کے تمام تر لوازمات سے ہم تہی داماں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ابھی جمہوری سفر کی ابتداء میں ہیں ، لیکن یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ہم نے شروعات میں ہی ضرورت سے زیادہ وقت گزار دیا ہے۔ تیز تر حرکت کے باوجود ہمارا سفر آہستہ، بلکہ بہت ہی آہستہ طے ہورہا ہے۔ 
دراصل سیاسی نظام کو کسی ملک کے معاشرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہمارا معاشرہ آمریت کی طرف فکری میل رکھتا ہے؛ چنانچہ پاکستانی سیاسی نظام پر آمریت کی بہت گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ یہ ملک کو حقیقی جمہوریت کی طرف عازم سفر ہونے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کی طرح ہے۔عام طور پرآمریت کو فوجی حکومت کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرلوں نے پاکستان میں آمریت قائم کی ۔ فوجی حکومتوں کے خاتمے کے بعد جب جمہوری نظام شروع ہوا تو بھی آمریت کے سوتے مکمل طور پر خشک نہ ہوسکے۔ اس صورتِ حال نے ملکی سیاست کو آمریت کے سانچے میںڈھال دیا۔ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام بھی اپنی توانا موجودگی رکھتا ہے۔ جاگیردار بھی اپنی جگہ پر بلاشرکت ِ غیرے حاکم ہوتا ہے، اسی طرح ہمارا سرمایہ دار بھی۔ دوسری طرف ہمارا معاشرہ ذات پات کے سخت نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ قبائلی نظام اور مذہبی شناختوں کی بھی ایک اپنی دنیا ہے۔ یہاں برداشت اور تحمل کی جگہ جذبات اور اندھی وابستگی پائی جاتی ہے جبکہ اندھی وابستگی کے لیے کسی بھی کسی بلاشرکت ِ غیرے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ ملک جمہوریت کی راہ پر ڈگمگاتے ہوئے چلنے کی کوشش کررہا ہے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ بعض سیاسی حلقے بھی فوجی حکمرانوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے رہے۔ ان کی حمایت سے ہی آمروں نے عشروں تک ملک پر حکومت کی۔ اب جبکہ ملک جمہوریت کی راہ پر چلنے کی کوشش کررہا ہے تو یہی طاقتیں اس کے راستے میں روڑے اٹکاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں آمریت کی ایک شکل معاشی اور سیاسی طور پر طاقتور حلقوں کی صورت میں بھی اپنی موجودگی رکھتی ہے۔ درحقیقت یہ طاقتور حلقے جمہوریت کوصرف اپنے اختیار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آج کی پاکستانی سیاست کو اشرافیہ کی سیاست قراردیا جاسکتا ہے‘ جس میں عام آدمی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت کو عوامی جمہوریت قرار نہیںدیا جاسکتا۔ ہمارے سیاسی نظام میں کام کرنے والی جماعتیں خود اپنے اندر بھی جمہوری اقدار کو پنپتے نہیں دیکھ سکتیں۔ زیادہ تر جماعتیں منشور کی بجائے کچھ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان شخصیات اور ان کے خاندان کے افراد ہی فیصلوں پر اجارہ داری رکھتے ہیں۔ ان جماعتوں میں مشاورت اور رائے عامہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر کبھی مشاورتی اجلاس ہوں تو بھی ان کے ''بڑے رہنما‘‘ بات کرتے ہیں جبکہ باقی تمام شرکا سرجھکائے سنتے رہتے ہیں۔ اختلاف ِ رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ممبران بھی‘ جو اگرچہ منتخب شدہ ہوتے ہیں، اس فیصلہ ساز حلقے میں شریک ہونے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔ ایک نوخیز مارکیٹ کے نظام میں ، جیسا کہ ہم رکھتے ہیں، دولت مند طبقے کے سامنے بہت سے امکانات موجود ہیں؛ تاہم وہ اپنے سامنے بہت سے رکاوٹیں بھی پاتے ہیں۔ اس کی وجہ حکمران سیاسی خاندانوں کے محدود مفادات ہیں۔ 
ہمارے جمود کے شکار سیاسی نظام کا سب سے بڑا شاخسانہ یہ ہے کہ اس میں نئے چہروں کی آمد کا راستہ بند کردیا گیا ہے۔ہر نئے آنے والے کو ماضی کی بڑی سیاسی شخصیت سے موافقت یا اس کی مخاصمت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ملک میںنئے اور جدت پسند سیاسی خون کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔اس طرح ہمارے ہاں سیاسی طور پر بانجھ پن پیدا ہوتا جارہا ہے۔ یہاں چند ایک سیاسی جماعتوں، جو سیاسی خاندان بن کر اپنی اجارہ داری قائم کرچکی ہیں، کے علاوہ مذہبی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر قائم جماعتیں بھی ہیں‘ جو کسی تبدیلی کی روادار نہیں۔ اس طرح جمہوری نظام کے اندر بھی تبدیلی کا راستہ مسدود ہوچکا ہے۔ اس ملک کی یہی ستم ظریفی ہے کہ جمہوری ہونے کے باوجود کوئی جمہوری اقدار اپناتا دکھائی نہیں دیتا۔ابھرتا ہوا درمیانہ طبقہ، تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ تربیت کے حامل افراد مہارت اور نئے تصورات رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان ایک زرحیز ملک ہے؛ تاہم اس طبقے کی جمہوری ایوانوں تک رسائی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اس طبقے کی نمائندگی کا دعویٰ ضرور کرتی ہے ، لیکن ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ اگلے انتخابات میں وہ کس قسم کے امیدواروں کو میدان میں اتارتی ہے۔ اس وقت تک پاکستان کا مجموعی سیاسی نظام جمود کا شکار ہے۔ ملک میں جمہوریت موجود ہے‘ لیکن جمہوریت کی روح لوہے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں