اب یہ پاکستان کے معروضی حالات میں کوئی چونکا دینے والی بات، چنانچہ خبر، نہیں رہی کہ بھتہ خوری سے لے کر قتل جیسی سنگین وارداتوں تک کا ارتکاب کرنے والے ہر قسم کے مجرم سیاسی جماعتوں اور طاقتور افراد کی پناہ میں رہتے ہیں ، یا وہ خود اپنی طاقتور تنظیمیں قائم کر لیتے ہیں اور انہیں سیاسی رنگ دے لیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم، جو انسانی فطرت کے منفی پہلو کا طاقتور اظہار ہوتے ہیں، کا ہونا معمول کی بات ہے، کیونکہ دنیا فرشتوں کے معاشرے سے تاحال لاعلم ہے۔ تاہم ہر معاشرہ جرائم کی سرکوبی اور مجرموں کی حوصلہ شکنی(سزا یا اصلاح) کے لیے حکمت ِعملی تشکیل دیتا ہے اوراس مقصد کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن جرائم زدہ عناصر کا سیاست میں شامل ہو کر تقویت حاصل کرنا ایک تشویش ناک مسئلہ ہے کیونکہ سیاسی عمل کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد مزید تقویت حاصل کرکے خود کو سزا سے محفوظ کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں معاشرے کے عام شہری ان کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے ، تو زندہ معاشرے کوکئی نسلوں تک جدوجہد کرکے ایسے گروہوں کی بیخ کنی کرنی پڑتی ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اس ضمن میں پاکستان اکیلا نہیں بلکہ بہت سے ممالک اور معاشرے سیاست اور جرم کے ادغام کے منفی اثرات سے متاثر ہوئے ہیں، لیکن اُس معاشرے نے اُس وقت ترقی کی جب جرائم پیشہ افراد کا سیاسی نقاب چاک کردیا گیا۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہونے جارہا ہے؟
پاکستانی سیاست بہت دیر سے جرائم پیشہ افراد کی دسترس میں رہی ہے۔ اس ضمن میں شاید پاکستان کے کسی حصے میں کسی بھی سطح پر کام کرنے والی سیاسی جماعت کو استثنا حاصل نہیں۔ بہت دیرسے یہ ایک معمول بن چکا کہ طاقتور سیاسی شخصیات اور جماعتیں جرائم پیشہ افراد کو استعمال کرکے اپنے سیاسی مخالفین کو دبائو میں رکھتی ہیں اور اگر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایسا ضروری ہوتو انہیں راستے سے بھی ہٹا دیا جاتا ہے، یا دھمکی دے کر سیاسی عمل سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ہمارے جاگیردارانہ پس ِ منظر میں یہ ایک جانی پہچانی بات ہے کہ کسی بھی علاقے کے جاگیردار اور وہاں فعال مجرموں کے گروہوں کے درمیان تال میل پایا جاتا ہے۔ اگر تمام جاگیر دار مجرموں کی سرپرستی نہیں بھی کرتے تو بھی ان کی ایک بڑی تعداد ایسا ضرور کرتی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے، بلکہ ان کے ذریعے عوام کو بھی دبائو میں رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس مقصد کے لیے تھانے کو بھی استعمال کیا جاتارہا ہے۔
شہری علاقوں میں جرم اور سیاست کاادغام زیادہ سنگین اور مختلف معاملہ بن کر سامنے آیا ہے۔ سنگین اس لیے کہ شہری علاقوں میں غلبہ رکھنے والی جماعتیں حکومت سازی کے عمل کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ وہ بزنس کمیونٹی کو بھی اپنی گرفت میں رکھتی ہیں ۔ بڑے شہروں میں سیاست اور جرائم کے ملاپ کا آغاز کچھ سیاسی حلقوں کے پرپراٹی مافیا اور قبضہ گروپ سے تعلق سے شروع ہوا‘ یہاں تک کہ اس نے تمام عمل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس عمل نے مجرموں کو راہ دکھائی کہ انفرادی سطح پر کام کرنے اور ایک دن قانون کے شکنجے میں آجانے سے بہتر ہے کہ اسے سیاست کی چھتری تلے کیاجائے ۔ اس سے وہ نہ صرف مزید طاقتور ہوجاتے ہیں بلکہ وہ قانون کی گرفت سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
آج پاکستانی معاشرے میں یہ سب سے سنگین مسئلہ بن کر سامنے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کیا علاج کیا جائے ، نیز کیا اس کاکوئی آسان علاج(سفاک آپریشن کے بغیر) ممکن بھی رہا ہے یا نہیں؟صرف جمہوری سیاست نہیں بلکہ سیاست کی ہرشکل جرائم پیشہ افراد کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتی ہے۔ ہمارے جیسے شخصیت پرست معاشرے میں یہ جرائم پیشہ افراد کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ کسی مرکزی سیاسی شخصیت سے انتہائی وفاداری جتاتے ہوئے کچھ بھی کرگزریں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ان تک قانون نے رسائی کرنے کی جرات کی تو اسے سیاسی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسے گروہ یا افراد اُس سیاسی شخصیت کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اور یوں اپنی ''سیاسی وفاداری ‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی سیاست میں سے جرائم کے عنصر کے خاتمے کے لیے شخصی سیاست کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی لیکن ایک ''پرکشش شخصیت ‘‘ کے گرد جرائم پیشہ افراد وفاداری کے نام پر جمع ہوسکتے ہیں۔
معمول کے حالات اور معاشروں میں سیاسی طاقت کا سرچشمہ عوام کی حمایت ہوتی ہے۔ جمہوری عمل کے نتیجے میں حق ِحکمرانی تک رسائی حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق مانا جاتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں کئے جانے والے تمام اقدامات اور اپنائی جانے والی ہر حکمت ِعملی آئین اور قانون کے تابع ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی عمل میں جرم کے داخلے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی عملداری بہت کمزور رہی ہے۔ جاگیردار اور حلقے عشروںسے حکومت میں رہنے کے بعد خود کو ہر قسم کی قانونی گرفت اور احتساب سے آزاد سمجھتے ہیں۔ آج جرم اور سیاست کے ادغام کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ اس سلسلے میں عدالتی نظام اور پولیس کو تقویت دینے ، بہتر بنانے اور ہر قسم کے سیاسی دبائو سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو دیگر دفاعی اداروں کی طرح پیشہ ورانہ بنیادوںپر استوار کیا جائے۔ اگر مجرموں کو سزا دینے کا عمل شروع ہوجائے اور اُنہیں احساس ہونے لگے کہ سیاسی وابستگی اُنہیں نہیں بچا سکے گی تو پھر وہ اس چھتری تلے آنے کی زحمت نہیں کریں گے۔ درحقیقت سیاسی عمل کی تطہیر کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جتنی ضرورت آج ہے، اتنی کبھی بھی نہ تھی۔ اس کے بغیر ہم امید نہیں کرسکتے کہ پاکستان کے باشندے صرف ووٹ کی طاقت سے ہی بہتر جمہوریت کی طرف بڑھ جائیںگے۔