آج مشرق ِوسطیٰ انتشا ر اور کشمکش کا شکار ہو کر متحارب دھڑوں میں بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ خانہ جنگی کے چنگل سے آسانی سے نہیں نکل پائے گا۔ خطے میں رونما ہونے والے انقلابی واقعات، جنہیں بہارِ عرب سے تعبیر کیا گیا، سے بہت پہلے ہی اس خطے میں ریاستوں کی تشکیل ایک فالٹ لائن پر ہوتی دکھائی دی تھی۔ عرب قوم پرستی کی وہ کشش جس نے مختلف قبیلوں، مذہبی گروہوں اور فرقوں کو آپس میں باندھ کر رکھا ہوا تھا، میں جان باقی نہ رہی ۔ عوام کے لیے ریاستوں کی تشکیل ایک کھوکھلا وعدہ ثابت ہوئی کیونکہ ان ریاستوں پرسیاسی عمل جمود کا شکار ہوگیا اور نسل درنسل حکومت کرنے والے خاندانوں کی شخصی آمریت نے عوامی حکومت اور ریاست کی تشکیل کا خواب چکنا چور کردیا۔ اس سیاسی جمود کی وجہ سے عوام مایوس ہوتے گئے یہاں تک کہ یہ خطہ عالمی تبدیلیوں کی زد میں آگیا ۔ عراق، شام ، مصر، یمن اور بہت سی دیگر ریاستیں، جو دنیائے عرب میں نسبتاً فلاحی ریاستیں ہونے کا تاثر رکھتی تھیں، میں بھی حکمرانوں نے جبر و تشدد کے ذریعے کئی عشروں تک اپنے اقتدار کو طول دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکمرانی کا ڈھانچہ اس نہج پر ڈھالا گیا جس کا مقصد جبر ، نہ کہ عوامی حمایت، کے ذریعے اقتدار کو طول دینا تھا۔ چنانچہ جمہوریت، عوام کے حقوق اور عرب قوم پرستی کی جگہ یونیفارم میں موجود طاقتور آدمی کی مرضی نے لے لی۔ گھٹن کی اس فضا میں میڈیا اور سماجی تحریکوں کو عوام کی آواز بننے کی اجازت نہ تھی۔
سیاسی اور جمہوری اختلافات کا مقصد اختلاف ِ رائے کو تخلیقی جہت عطا کرتے ہوئے مذہبی اور لسانی اختلافات کو دبانا ہوتا ہے۔ تاہم ان عرب ریاستوں میںمعمول کی جمہوری سرگرمیوں، سیاسی جماعتوں، آزادانہ انتخابات، سماجی گروہوں اور شخصی آزادی کی غیر موجودگی میںمعاشرہ قبائل شناختوں، فرقہ واریت اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے لگا۔ حکومت کے خلاف کی جانے والی مزاحمت میں بھی سیاسی اختلاف کی بجائے مذہبی اور قبائلی رنگ ابھرنے لگا۔ کسی بھی آمرانہ طرز ِحکومت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ حکمران عوام سے دور رہتے ہیں۔ اُنہیں اپنے اور عوام کے درمیان محفوظ فاصلہ پیدا کرنے کے لیے جبر کا سہار ا لینا ہوتا ہے تاکہ وہ عوامی اختلاف اور بغاوت کا راستہ سختی سے روک سکیں۔ چنانچہ دیکھنے میں آیا کہ ان ریاستوں کی آمرانہ حکومتیں عوام اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی تھیں۔ اس سخت اور بے لچک رویے کی وجہ سے مختلف اشکال میں مزاحمت سامنے آتی رہی یہاں تک کہ کچھ ریاستوں میں مسلح دستوں نے ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ دہشت گردی کی پیہم کارروائیوں کی وجہ سے ریاست کی عملداری کمزور پڑ گئی۔ ان میں مصر میں قدرے مختلف صورت ِحال دیکھنے میں آئی کیونکہ اس کی طاقتور فوج نے استحکام اور امن قائم کرنے کے لیے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اُس وقت تک قومی اور علاقائی معروضات تبدیل ہونا شروع ہوگئے تھے۔
یمن میں کم و بیش ایک عشرے سے کشمکش جاری ہے۔ یہاں مسائل میں اضافہ کرنے والے تمام عناصر، جیسا کہ قبائلی، مذہبی اور فروعی اختلافات رکھنے والے دھڑے موجود ہیں۔ سب سے خطرناک پیش رفت یہ تھی کہ سول کشمکش میں علاقائی طاقتوں کا تصادم، جن میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان رقابت سب سے شدید ہے، بھی شامل ہوکر جلتی پر تیل گرانے لگا۔ ان دونوں ممالک کی مداخلت در مداخلت کی پالیسی نے ان کے ہم خیال گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیا ہے۔ خطے کی موجودہ کشمکش میں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا الائنس نسبتاً طاقتور ہے اور اسے امریکہ او ر مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ خطے پر جارحانہ انداز میں اثر انداز ہوکر اپنی مرضی سے معاملات کو نمٹانا چاہتا ہے۔ تاہم اس دوران خطے میں کچھ اور خطرناک عوامل سراٹھارہے ہیں۔ ان میں سب سے تشویش ناک داعش ہے جس نے شام اور عراق میں اپنی جڑیں پھیلارکھی ہیں ، جبکہ اس کے ہم خیال بہت سے انتہا پسندگروہ دیگر ریاستوں میں بھی فعال ہیں۔ اس طرح یہ خطہ شدید قسم کی کشمکش کا شکار ہے۔ اس کشمکش کا ایندھن بننے کے لیے ہر گروہ اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کررہا ہے۔ اس بھرتی کے عمل میں بہت سی تنظیمیں معاونین کا کردار ادا کررہی ہیں ، حالانکہ ان تنظیموں کو ان کے ممالک میں سرکاری سطح پر دہشت گرد نہیں سمجھا جاتا، لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایسی تنظیمیں نظریات کی آڑ میں برین واشنگ کرکے نوجوانوں کو اس کشمکش میں جھونک رہی ہیں۔ اپنی وسیع آبادی ، بے روزگاری اور تعلیمی سہولیات کے فقدان کے ساتھ پاکستان ایسی تنظیموں کے لیے ایک زرخیز زمین ہے۔یہ تنظیمیں مختلف ناموں سے یہاں نوجوانوں کی برین واشنگ کررہی ہیں۔
پاکستان کئی عشروں سے مشرق ِوسطیٰ میں بننے والے پاور بلاک کی طرف جھکائو رکھتا ہے کیونکہ اس کے سکیورٹی اپریٹس کا دارومدار انہی مغربی ممالک پر ہے جو ایسے پاور بلاکس کے حامی ہیں۔ ہمارے بعض حکمرانوں کے عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ہماری افرادی قوت کی کھپت کی اہم ترین جگہ یہی ریاستیں ہیں۔ خطے سے شاہ ایران کی رخصتی کے بعد سے ایسی صورت ِحال پیدا ہوچکی ہے کہ پاکستان جیسے ایک ملک کے لیے دونوں مخالف ممالک، سعودی عرب اور ایران، کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا بہت دشوار لگتا ہے۔ ہمارے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایک حقیقت ہیں، لیکن آج کے معروضی حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان مشرقی ِ وسطیٰ میں ہونے والی کشمکش سے خود کو ہر ممکن حد تک دور رکھے۔ تاہم یہ کام آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر اُس وقت جب پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہوں۔ خدشہ محسوس ہورہا ہے کہ یمن کے حوالے سے اہم فیصلے کرتے وقت قومی مفاد کی بجائے ان تعلقات اور جذباتی لگائو کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔ اگر پاکستان کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں کبھی غیر جانبدار ہونے کی ضرورت تھی تو شاید اس کا وقت آن پہنچا ہے۔