ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا جو ہم نے تیرہ مئی کودیکھاکہ ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے بے گناہ افراد کو کراچی کی گلیوں میں موت کی نیند سلا دیا گیا ہو۔ اس سے پہلے بارہ مئی 2007ء کو ہونے والی قتل وغارت ، اٹھارہ مئی کو وکلاکو زندہ جلا دینا اور بہت سے علما، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے کارکنوں اور پولیس افسران اور ڈاکٹروں کو گھات لگا کر قتل کرنے کے بہت سے واقعات یادداشت کا حصہ ہیں۔ کراچی عرصۂ دراز سے قتل گاہ بنا ہوا ہے، لیکن یہ انسانی جانوں کی ارزانی صرف کراچی کے میدانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سیاسی ، مذہبی ، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر قتل و غارت کا بازار گرم ہے، لیکن نہایت نرم خو اور انسان دوست نہتے افراد کو یوں بے بسی کے عالم میں گولیوںسے چھلنی کردینا ایسی سفاکیت ہے جس کی مثال ہماری خون میں ڈوبی ہوئی اس ریاست میں بھی نہیں ملتی ۔
بلوچستان میں دہشت گرد بہت منظم طریقے سے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہاںلسانی بنیادوںپر بھی خون بہایا جارہا ہے۔ ملک کے مغربی علاقوں میں سرگرمِ عمل دہشت گرد اتنے طاقت ور ہوچکے تھے کہ اُنھوں نے ریاست کے اداروں کو چیلنج کردیا اور بہت سے علاقوں، جیسا کہ سوات اور مالا کنڈ میں ریاست کی عملداری ختم کرکے اپنا نظام قائم کرلیا۔ سیاسی بنیادوں پر مخالفین کو گھات لگا کرقتل کرنے اور فرقہ وارانہ بنیادوں کو مخالفین کی مجالس اور مقدس مقامات پر کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس خونریزی میں کوئی ایک گروہ یا تنظیم ملوث نہیں ۔ یہ دہشت گردی کاایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کی ایک شکل سیاسی ہے تو دوسری مسلکی۔ مختلف وجوہ کی بنیاد پر ملک بھر میں گزشتہ ایک عشرے سے ہونے والی دہشت گردی کی بھینٹ ساٹھ ہزار سے زائد افراد چڑھ چکے ہیں۔ فوج نے کارروائی کرتے ہوئے سوات کو آزاد کرایا اور آپریشن ضرب ِعضب جاری ہے لیکن صفورا گوٹھ جیسے واقعات کامیابی کے دعووں کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ یہ درست یہ ہے کہ یہ جنگ راتوں رات ختم ہونے والی نہیں لیکن جو بات عوام جاننا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو دہشت گرد ہلاک ہورہے ہیں، ان کا تعلق معاشرے کے کن طبقات سے ہے۔ اس وقت اس سوال کا جواب ملنا بہت ضروری ہے کیونکہ فٹ سولجرز کو ہلاک کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، عوام کو ان کے ماسٹر مائنڈز کا پتہ چلنا چاہیے تاکہ آئندہ دہشت گرد کسی بھی روپ میں سامنے آکر عوام کو گمراہ نہ کرسکیں۔
خون میں ڈوبا ہوا یہ منظر نامہ اپنی جگہ پر لیکن کراچی کی صفورا گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے انتہائی اندوہناک حملے کی تفصیل بیان سے باہر ہے۔نہتے ، بے گناہ اور انتہائی پرامن شہریوںپر اس طرح بربریت اور درندگی کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اگرچہ کراچی ملک، بلکہ برِ صغیر کا سب سے پرتشدد شہر ہے لیکن گزشتہ کئی عشروںسے اس دلخراش واقعے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس شہر میں سیاسی قوتیں اور ان کے رہنما بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود یہ افراتفری جاری ہے۔ یہاں ریاستی اداراے بھی قانون نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوںاور ان کی صفوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی کی طرف بھی نشاندہی کرچکی ہے۔ دوہرا کردار رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور ان میں شامل مسلح جتھوں کی وجہ سے عوام ان کی مخالفت سے خائف رہتی ہے۔یہ صورت ِحال پاکستان کے صرف ایک شہر تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر جگہ ایسا ہورہا ہے۔ ملک کے کسی حصے میں امن و امان کی صورت ِحال تسلی بخش نہیں۔ ملک میں جاری خونریزی کے باجود عوام یہ نہیں جان سکتے کہ اس کے پیچھے فعال ہاتھ کس کاہے۔ عام طو رپر بے بنیاد الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر بہت کم مجرم پکڑے اور کیفر کردار تک پہنچائے جاتے ہیں۔ مجرموں اور قاتلوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے گمنامی میں رہتے ہوئے سزاسے بچ نکلنے کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور لاچارگی کا احساس گہرا ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے ارد گرد کون سی قوتیں ہلاکت پر آمادہ ہیں۔ ہر واقعے کے بعد سیاسی بیانات، روایتی مذمت، انگشت نمائی اور بلندوبانگ دعووں کا شروع ہونے والا سلسلہ چند روز تک جاری رہتا ہے، زخم مندمل ہونے لگتا ہے ، لوگ اپنے کاموں میں الجھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک اور واقعہ پیش آجاتا ہے۔
کوئٹہ کی ہزارہ برادری اور اب کراچی کی اسماعیلی برادری پر ہونے والے حملے کے بعد ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ان انسانیت سوز واقعات میں کون سا گروہ ملوث ہوگا۔ عوام کی اکثریت ان واقعات کو فرقہ وارانہ کشیدگی کا عملی مظہر قرار دیتی ہیں۔ ان واقعات کو روکنے کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے، لیکن واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی ادارے پاکستانیوں کو جان کا تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اگر حکومت عوام کو تحفظ دینے کی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو اس کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ تسلسل کے ساتھ ہونے والے واقعات یقینا حکومت اور اس کے اداروں کی ناکامی ہیں۔ ذمہ داری کے بغیر اختیار کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسماعیلی برادری پر حملہ یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ صاحبان ِ اختیاروقدر اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ہمیں اس وقت سازش کی تھیوریوں کی نہیں ، مجرموں کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہرے تک لانے کی ضرورت تھی۔ اگران واقعات میں غیر ملکی ملوث بھی ہیں تو بھی ہمیں پہلے اپنے گھر کی خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ صرف بات کہنا بھی کافی نہیں کہ یہ دہشت گردی غربت سے جنم لیتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستان سے بھی زیادہ غریب اور معاشی انحطاط کا شکار ہیں لیکن وہاں کوئی بچوں کو چہروں پر اور پرامن شہریوںکے سروں پر گولیاں مارکر ہلاک نہیں کرتا۔ سب سے افسوس ناک بات یہ کہ ریاست بالکل بے خبر ہے کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے۔ دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ انتہا پسندی ہے ، لیکن کس میں ہمت ہے کہ اس کے خلاف زبان کھولے؟ جو لوگ دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں، وہ بھی انتہا پسندی کے خلاف لب کشائی کی جسارت نہیں کرتے۔ اس سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ریاست کے سامنے اصل چیلنج کیا ہے۔