"RBC" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات کی تغیر پذیر جہت

افغانستان ، جو گزشتہ 37برسوں میں تین بڑی اور طویل جنگوں کی تمازت برداشت کرچکا ہے، کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی سازی کی بنیاد اس معروضے پر ہو نی چاہیے کہ اُس بدقسمت ملک میں پیش آنے والے واقعات کا پاکستان پر اثر ضرور ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ ڈیونڈر لائن کے پار سے آنے والی خبریں بہت حوصلہ افزانہیں، چنانچہ وہ پاکستان کے لیے لائق تشویش ضرور ہیں۔ پاکستان یہ کہتے ہوئے اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا، جیسا کہ بہت سے نام نہاد دانشور سمجھتے ہیں۔۔۔''تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘۔
یہ بری خبریں کیا ہیں؟ملک کے جنوبی حصوں میںطالبان پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما چکے ہیں۔ اُنھوں نے وہاں سے افغان سکیورٹی فورسز کو مار بھگایا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چار ماہ کے دوران افغان فورسز کو 1,800 ہلاکتوںکا نقصان برداشت کرنا پڑا جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 3,400 ہے۔کابل سمیت ملک کے دیگر حصوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور پرتشدد کارروائیاں سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست کررہی ہیں۔ اس پس ِ منظر میں سب سے تشویش ناک خبر یہ ہے کہ افغان حکومت سابق جنگجو سرداروںسے رابطہ کرتے ہوئے پیغام دے رہی ہے کہ وہ مقامی سطحوں پر اپنے اپنے دستوں کو طالبان کے خلاف متحرک کریں۔ اس سے دو تشویش ناک پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔۔۔ پہلا یہ کہ ملک میں امن و امان کی صورت ِحال مزید ابتر ہوجائے گی اورملک خانہ جنگی کے شعلوں کی نذر ہوجائے گا ۔ دوسری طرف عوام کو اپنی قومی سکیورٹی فورسز ، جنہیں عالمی برادری نے اس امید پر قائم کیا تھا کہ وہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالیں گی، پر سے اعتماد جاتا رہے گا اور وہ تحفظ کے لیے ان جنگجو سرداروں کی طرف دیکھیں گے۔ اس سے ان سرداروں کی اہمیت بڑھ جائے گی اور نوجوان افراد کو اپنی صفوں میں شامل کرکے خود کو مزید توانا کرتے جائیں گے۔ اس مرتبہ طالبان اور ان کے حریف سرداروں کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی انتہائی ہولناک ہوگی اور اس کے پاکستان پر بھی نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
طالبان کے خطرے سے نمٹنے کے لیے افغان جہاد کا تجربہ رکھنے والے جنگجو سرداروں کو صف آراء کرنا کسی طور بھی دانائی نہیں کیونکہ اس سے ایک توملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ جائے گا اور دوسرے یہ کہ نسلی، مذہبی اورعلاقائی سطحوں پر مسلح لشکر، چاہے اُنہیں ریاست کی پشت پناہی کیوں نہ حاصل ہو، کسی طوربھی نیشنل سکیورٹی قائم کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات ہوتے ہیں جنہیں وہ ملکی سکیورٹی پر مقدم رکھتے ہیں۔ وارلارڈز کو طالبان کے خلاف کھڑا کرنے کے پیچھے افغان حکام کا جوبھی مقصد ہو یا وہ اس کا جو بھی جواز فراہم کرسکیں، یہ پیش رفت ملک کوناقابل ِبیان تباہی کی طرف دھکیل دے گی۔ یہ حالات پاکستان کے لیے پریشان کن ثابت ہوںگے۔ حالیہ دنوں پاک افغان تعلقات میں آنے والی مثبت تبدیلی کی بنیاد پاکستان کی لچک دار افغان پالیسی پر ہے۔ پاکستان نے افغان سرزمین پر موجود پراکسی قوتوں کی بجائے افغان حکومت کے ساتھ روابط بڑھانے کی پالیسی اپنائی تو اس کا سرحد پار سے بھی حوصلہ افزا پیغام آیا۔ گزشتہ کچھ عرصے پاکستان کی اس تبدیل شدہ پالیسی کا تسلسل دیکھنے میں آیا کیونکہ اس نے سکیورٹی مفادات کا اپنی انٹر نیشنل سرحدوںسے آگے جاکر افغان سرزمین پر جارحانہ تحفظ کرنے کی قیمت کا اندازہ لگالیا ہے۔ اس کے علاوہ داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے دور میں پراکسی لشکر پالنے کی عیاشی کے دن جاچکے۔
پاکستان اور افغانستان کے قریب آنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک جن قوتوںسے برسر ِ پیکار ہیں، اُن کی نوعیت ایک سی ہی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف طالبان(افغان طالبان اور پاکستانی طالبان) کے عقائدایک جیسی بنیاد پرستی اور عصبیت کے گرد گھومتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ داعش کے عقائد بھی یہی ہیں۔ یہ سب ایک جیسے نظریات رکھنے والے انتہا پسند گروہ ہیں، لہٰذا ان کے خلاف افغان حکومت اور پاکستانی حکومت کا مل کر آگے بڑھنا حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ، خطے کی کوئی بھی منتخب شدہ حکومت ہو، اس کے مقابلے وہاں موجود دیگر قوتوں کے ساتھ روابط رکھنا کسی بھی حکومت کے لیے مناسب طرز ِعمل نہیں کیونکہ اس سے نسلی اور قبائلی بنیادوں پر علیحدگی پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ افغان سرزمین پر حکومت کے خلاف لڑنے والے کسی گروپ کی حمایت کرنااپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہوگا۔ اگر افغان سرزمین پر طالبان غلبہ حاصل کرتے ہیں تو اس سے پاکستانی سرزمین پر لڑنے والے طالبان کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اٹھارویں صدی سے آج تک جنگ وجدل کی تاریخ رکھنے والے اس ملک پر نگاہ ڈالنے یہی حقیقت منکشف ہوتی ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان افغان سرزمین پر پبا ہونے والی شورش، جو اس کے لیے بھی سکیورٹی کے مسائل پیدا کردے گی، کو روکنے کے لیے کیا کرے؟سب سے پہلے تو ہمیں افغان صدر اور ان کے پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار اتحادیوں کو یقین دلانا ہوگا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو کبھی بھی افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ وزیر ِ اعظم پاکستان، محمد نواز شریف نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ''افغانستان کے دشمن پاکستان کے دوست نہیں ہوسکتے۔‘‘ان سے یقینا مراد افغان طالبان تھے۔ ہمیں ان لفظی یقین دہانیوں سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے عملی طور پر ایسا کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان اور افغانستان مل کر طالبان کے خلاف صف آراہوتے ہیں تو یہ ایک تاریخی پیش رفت ہوگی۔ دراصل پاکستان کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے ، لیکن اس کے لیے افغانستان میں قیام ِامن ناگزیر ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کی طرف سے ایک دوسرے کی سرزمین پر عدم مداخلت کی پالیسی وقت کی ضرورت بھی ہے اور طالبان اور دیگر مسلح دھڑوں کو شکست دینے کے لیے ضروری بھی۔ دوسری طرف افغان حکومت کو بھی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی سرزمین کسی طور پر بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے پائے ۔ اس کی سکیورٹی فورسز اُن عناصر کاخاتمہ کریں جو اس کی سرزمین سے پاکستان میںکارروائیاں کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز اور عوا م کے جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں