"RBC" (space) message & send to 7575

دنیائے عرب کا ردِعمل

سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے کولیشن کا جس نے یمن پر جنگ مسلط کی ہے، حصہ نہ بنتے ہوئے پاکستان نے ریاض اور متحدہ عرب امارات کو ناراض کردیا ۔ وہ توقع کررہے تھے کہ اس جنگ میں پاکستان اُن کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے عرب بھائیوں کا یہ دعویٰ درست ہو کہ وہ ماضی میں بہت سی مشکلات کے وقت ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے، تاہم اس میں یک طرفہ فیاضی کارفرما نہ تھی۔ ہم نے بھی عشروں تک اپنی دوستی نبھائی ہے۔ ہم نے سکیورٹی ٹریننگ اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے علاوہ ایک عشرے پر محیط ایران عراق جنگ کے دوران اپنے فوجی دستوں، مشیر وں اور ماہرین کی خدمات سعودی عرب کے سپرد کیے رکھیں۔ 
پاکستان نے روایتی طور پر اپنے عرب بھائیوں کے دوسرے گھر کا کردار ادا کیا ہے، اور اب بھی اس کی انسیت اور یگانگت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اگر ہمارے عرب دوست بھارت کی طرف جھکائو رکھنا چاہیں تو بھی ہماری مہمان نوازی اور تعاون میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ دراصل خارجہ معاملات میں ہنگامی رد ِعمل کی گنجائش نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ کوئی عارضی تعاون حاصل کرنا ہویا کسی فریق پر دبائو ڈال کر کوئی بات منوانی ہو۔ پاکستان کو اس پر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کہ امارات بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانے جارہا ہے۔ یقیناعرب دوستوں کے پاس بہت پیسہ اور بھارت بڑی مارکیٹ ہے‘ ہم اُن کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہیں۔ 
یہاں سوال یہ ہے کہ یہ پیش رفت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب نریندر مودی اپنی انفراسٹرکچر مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کرنے کے لیے وہاں گئے۔ کیا اسے عربوں کے فرضی یا حقیقی حریف ایران کے خلاف ایک سٹریٹجک شراکت داری کہا جاسکتا ہے؟یہ بات پریشان کن ہے کہ انڈیا جس طرح آج ایک بڑی مارکیٹ ہے ، تو یہ عشروں پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم ماضی میں یواے ای اس کی انفراسٹرکچر مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتا دکھائی نہیں دیا۔ اگر عرب دوست اس مرتبہ اس لیے ایسا کررہے ہیں کہ انڈیا اُنہیں ایران کے خلا ف ایک سٹریٹجک بازو فراہم کرے گا تو اُنہیں مستقبل میں ویسی ہی مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسی اُنہیںیمن جنگ میں پاکستان کی طرف سے ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ممالک اپنے تعلقات کو اپنے ذاتی نفع نقصان کے ترازو میںپرکھ کر دیکھتے ہیں۔ اُن کے خارجہ تعلقات جذباتی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ایک روایتی سچائی یہ ہے کہ قومی مفاد کے سواکوئی چیز بھی عالمی سطح پر مستقل نہیں ہوتی۔ دوستوں اور دشمنوں کا تعین اسی نسبت سے ہوتا ہے۔ 
پاکستان نے بہت عقلمندانہ فیصلہ کیا جب اس نے خودکو عربوں کی باہم چپلقش سے دور رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب ممالک سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ ایران بھی ہمارا انتہائی اہم ہمسایہ اور برادر ملک ہے ۔ ہم اس کے ساتھ ہونے والی کسی عرب کشمکش کا حصہ بننا افورڈ نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ عرب ایران تنازع میں‘ جو دراصل سیاسی اور معاشی ہے، فرقہ واریت کی جھلک نمایاں ہوجاتی ہے۔ کثیر مسالک رکھنے والا ملک، پاکستان، کسی ایسی کشمکش میں شریک نہیں ہوسکتا جو اس کے اپنے معاشرے کے لیے تباہ کن ہو۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب ہم عرب ایران تنازع سے الگ رہے، اس سے پہلے عراق ایران جنگ کے دوران بھی پاکستان نے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھی تھی۔ اس کے بعد جب عراق نے کویت میں فوج کشی کی تو بھی تو ہم پہلی خلیجی جنگ سے الگ رہے ۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے (بھٹو دور میں) مخالف نظریات رکھنے والے عرب رہنمائوں ، جیسا کہ شاہ فیصل، حافظ الاسد، قذافی، شاہ حسین ، مبارک کے علاوہ شاہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی کا بہترین اظہار تھا۔ بعد میں آنے والے دور میں بھی ہمارے دفتر ِخارجہ نے انہی راہوں پر چلنے کی کوشش کی۔ تاہم ، ہم عرب وعجم کی جنگ میں شامل ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں ۔اگر کوئی ہمیں الجھانا چاہے گا تو اُسے مایوسی کا سامنا کرناپڑگا۔ 
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا لچک دار معاشرہ عرب ایران رقابت سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اگرچہ دیگر ممالک کے برعکس، پاکستان میں ریاستی سطح پر کسی خاص مسلک کی حمایت کی پالیسی نہیں بنائی گئی، لیکن ایران ہمارا جھکائو عرب نظریات کی طرف سمجھتا ہے۔ عرب اور ایران نے اپنے اپنے پراکسی گروہوں کو ہمارے ہاں ایک دوسرے کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں مبینہ طور پر بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی۔ اس نے ہمارے معاشرے کو مسلکی اعتبار سے تقسیم کردیا۔ تصادم کی صورت میں عرب یا ایران میں کسی ایک کا کھل کر ساتھ دینا ہمارے معاشرے کا شیرازہ بکھیر دے گا۔ چنانچہ بہتر ہے کہ ہم اُسی پرانی روش پر چلتے رہیں اور ان اسلامی ریاستوں کے درمیان جہاں تک ممکن ہو، غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ 
اس وقت مشرق ِوسطیٰ ایک نئی قسم کی جنگ کی لپیٹ میں آتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا ہمسایہ افغانستان بھی ابھی امن کی منزل سے دور ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ کہ خطے میں ہونے والی خانہ جنگی پر قبائلی، مسلکی اورنسلی رنگ بہت گہرا ہے۔ سیاسی وجوہ پر لڑی جانے والی جنگوں کا افہام وتفہیم سے ، مذاکرات پر، اختتام ہوسکتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ایسی جنگوں میں کسی ایک فریق کا فیصلہ کن حد تک شکست سے دوچار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اس کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے عرب دوست جو مرضی سوچتے رہیں‘ ہم اس جنگ سے دور رہتے ہوئے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اسی میں ہماری بہتری ہے۔ درحقیقت گزشتہ کچھ عرصہ سے عربوں نے پاکستان کو سمجھنے میں شدید غلطی کی ۔ ہم سفارتی طور پر لچک دار دکھائی دینے (اور بہت سی غلطیوں ) کے باوجودحالیہ دنوں اپنے قومی مفاد کا دفاع کرنا پہلی ترجیح سمجھتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم بھی اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس جنگ میں ہم کسی کی مددکے طالب نہیں، بس اتنی درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے دوست ممالک اپنے پراکسی لشکروں کی حمایت سے دسبتردار ہوجائیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی مذہبی رواداری کے پہلو ہر ممکن حدتک بچاتے ہوئے مسلکی جنگوں سے گریز کریںگے۔ اہم بات: ہم ایک بڑی اور طاقت ور ریاست ہیں، اور ہم اپنے مفاد کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ یہ بات ہمارا ایک بڑا ہمسایہ بھی جانتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں