کھوکھلی اور سطحی شکل میں صرف حکمران طبقے یا اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی جمہوریت کی بساط دنیا میں کئی مرتبہ لپیٹی جا چکی۔ پاکستان میں بھی نام نہاد جمہوریت کو چارمرتبہ تبدیل کرکے فوجی حکومتیں قائم کی گئیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر بہت سے سیاسی خاندان، جو معمول کے حالات میں جمہوریت کے چیمپئن کہلاتے ہیں، بھی آمریت کی ویگن میں سوار ہوگئے۔ افسوس ناک بات یہ کہ اُنھوں نے اس کا کوئی نہ کوئی جواز بھی فراہم کیا۔ اس سے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ انہیں جمہوریت کی نہیں، صرف طاقت اور اقتدار کی ضرورت تھی۔ ان کے لیے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ منزل کیسے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی پرا عتبار نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے عوامی نمائندوں کی افسوس ناک تاریخ یہ ہے کہ کبھی تو وہ جمہوریت کے پلیٹ فارم سے منتخب شدہ نمائندہ حکومت تشکیل دے کر اپنا ایجنڈا پورا کرلیتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتو پھر ''قومی مفاد‘‘ میں فوجی حکومت کے ساتھ ہولیتے ہیں۔ اس رویے سے یہ سوال پید ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت کو کسی بیرونی طاقت سے خطرہ ہے یاداخلی عوامل سے؟
اس کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ سول ملٹری طاقت اور اختیار میں عدم توازن پایا جاتا ہے ، اس لیے جب بھی فوج چاہتی ہے، یہ اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے، لیکن یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اُسے سیاسی قوتیں ہی ایسا کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ اگرچہ فوجی ادارے کی طاقت اوراسے حاصل اختیار کو علمی سطح پر زیر ِ بحث لایا جاتا ہے، اس پر سیاسی اور سماجی فورمز پر بات ہوتی ہے، لیکن نام نہاد جمہوریت کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی۔ جمہوریت پر رائے زنی کرنا آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ جب تک آپ اس کی داخلی خامیوں پر بات نہیں کریں گے، یہ بہتر کیسے ہوگی؟ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ تمام دنیا میں قائم جمہوری نظام ٹھوس طاقت نہیں رکھتے ہیں، یہ طاقت دفاعی اداروں کے پاس ہی ہوتی ہے۔ جمہوری اشرافیہ ایک سیاسی نظام قائم کرتی ہے، جس میں انتخابات لڑنے والے خاندان شامل ہوتے ہیں۔ اس نظام سے گروہوں اور افراد کے مفادات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو انہیں ووٹ دیتے ہیں، ان کے پیش ِ نظر بھی ملک، ریاست، قوم یا انسانی فلاح کا جذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔ درحقیقت ووٹ دینے والے افراد کے بھی اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
فلسفیانہ اور عملی طور پر جمہوریت کا مطلب عوام کے مفاد کو تحفظ دینا اور ان کی درست خواہشات کو عملی جامہ پہنانے والا ایک نظام وضع کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک جیسے حالات رکھنے والی ممالک میں جمہوریت نے قانون سازی کرنے ، ادارے بنانے، وسائل حاصل کرنے اور عوام کی فلاح کے لیے سماجی اور معاشی ترقیاتی منصوبوں بنانے ہوتے ہیں۔ دراصل جمہوریت ایک دوطرفہ ٹریفک ہے۔۔۔ عوام پہلے منتخب شدہ نمائندوں کو حکمرانی کا اختیار دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ایک شرط رکھی جاتی ہے کہ وہ نمائندے عوام کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ اس طرح اُن نمائندوں نے قومی مفاد کے ساتھ ساتھ افراد کے مفاد کا بھی خیال رکھناہوتاہے۔ اس طرح عوام کا فرض صرف ووٹ دینا ہی نہیں، حکومت میں عملی طور پر شریک ہونا بھی ہے۔ تاہم کمزور جمہوریت میںاسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا، جیسا کہ پاکستان میں، کئی منتخب شدہ نمائندے عوام کے مفاد کا خیال رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ وہ بدعنوانی، نااہلی اورعوامی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ پروپیگنڈا نہیں، حقیقت ہے ۔ ہم جمہوریت کے نام پر یہ افعال دیکھتے اور انہیں جمہوریت کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے ایک عمر گزارچکے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے پاکستان ہر جمہوری دور سے گزرنے کے بعد کمزور ہوا ہے، لیکن مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ جمہوریت کاگند صاف کرنے کی کوشش نے ملک کو مزید مسائل سے دوچار کردیا۔ اس وقت بھی ملک میں دبے لفظوں میں ایک بحث جاری ہے کہ کیا جمہوریت موجودہ مسائل سے ملک کو نکال سکتی ہے؟ دراصل حکمرانوں کی عدم فعالیت کا زخم جمہوریت کے سینے پر ہی لگتا ہے۔ اس کے بعد مسیحائی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
ہمارے ہاں حکمرا ن اشرافیہ عوام سے سماجی ربط نہیں رکھتی۔ اس رویے نے بھی جمہوریت کو کمزور کرنے کے علاوہ عوام کو بدل کردیا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ اُن کا جمہوریت میںکوئی اسٹیک نہیں، اس لیے وہ اس عمل میں فعال حصہ نہیں لیتے۔ آج ملک کی کوئی پارٹی بھی ملک کے تمام حصوں میںعوامی مقبولیت کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ہر اقتدار سنبھالنے والی پارٹی وہی گھسے پڑے جملے بولتی ہے۔۔۔''ہمیں یہ مسائل وراثت میں ملے‘‘۔ یا یہ کہنا کہ سابق جماعت نے ملک کا کباڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لیے ہمارے سامنے بہت کٹھن کام اور بہت کم وسائل ہیں۔ تاہم اس کے بعد عوام دیکھتے ہیں کہ حکمران طبقہ وسائل میں کھیل رہا ہوتا ہے جبکہ ملک کی حالت ویسی، یا اُس سے بھی بدترہوتی ہے جس وہ سابق حکومت پر الزام لگاتے تھے۔ کیا انصاف، احتساب، قانون کی حکمرانی یا موثر گورننس کے بغیر بھی جمہوریت کا دنیا میں کوئی تصور موجود ہے؟جمہوریت اُسی وقت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جب اس میں عوام کا اسٹیک ہو۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں، بس جمہوریت ہی جمہوریت ہے۔