بھاگسار سکول پنجاب کے انتہائی پسماندہ ضلع، راجن پور کا ایک ہائی سکول ہے۔ اس علاقے سے ابھرنے والا سیاسی طبقہ اور افسر شاہی، جوسماجی ڈھانچے میں اپنی جڑیں رکھتے ہیں،کا حصہ صوبے میں کم ترین ہے۔ یہ سکول ملک کی آزادی سے کئی عشرے قبل قائم کیا گیا تھا اور میں بچپن سے اس سکول کو جانتا ہوں۔ میں نے ساٹھ سال قبل یہاں سے پہلی دوجماعتیں پاس کیں۔ قریب ہی بہنے والے دریائے سندھ میں آنے والے 1954ء کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے سکول کو دوسری جگہ پر منتقل کردیا گیا تھا۔ چنانچہ میں نے وہاں داخلہ لیا تو سکول کی ''مرکزی بلڈنگ‘‘ ایک مٹی کی جھونپڑی تھی جبکہ تمام کلاسیں ایک درخت تلے تحصیل ِعلم کرتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح سکول کے دو مخلص ٹیچر، ماسٹر کرم دین صاحب اور سید کاظم حسین شاہ صاحب نامساعد حالات میں بھی نہایت دلجمعی سے پڑھاتے تھے۔ اُس وقت ہمیں علم نہ تھا کہ اس سے بہتر سکول اور اتنے شفیق استاد کہیں اور بھی پائے جاتے ہیں، ہمارے لیے وہ بہترین درسگاہ تھی اور ہمیں اس سے ایک انسیت سی تھی۔
آج عشروں بعد سب کچھ تبدیل ہوچکا ، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بہتری دکھائی دیتی ہے کیونکہ حکومت کے وسائل میں اضافے اور ملک میں سرمایہ کاری کی اٹھان تمام شعبوں کو بہتر کر رہی ہے۔ کئی عشروںسے میں بہت چاہت سے اپنی ابتدائی درس گاہ میں باقاعدگی سے جاتا ہوں۔ حالیہ برسوں میں بھاگسار سکول میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں اور ان کا کریڈٹ یقینی موجودہ انتظامیہ کو جاتا ہے۔ اسے ترقی دے کر ہائی سکول کا درجہ دے دیا ہے جبکہ گائوں میں ایک لڑکیوں کا سکول بھی ہے۔ اب یہ اچھی عمارت، لیبارٹری، تدریسی سامان اور معقول تعداد میں اساتذہ رکھنے والا ایک ایسا سکول ہے جسے ہر لحاظ سے جدید کہا جا سکتا ہے۔ اس کے سرسبز میدان، وسیع جگہ، درخت، پھول اور عمارت کے کچھ حصوں پر چڑھی ہوئی بیلیں بہت خوشنما لگتی ہیں۔ ہمارے دور کے برعکس اب طلبہ کے بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور بنچ ہیں۔ گزشتہ پانچ برس سے اس کا یونیفارم بھی تبدیل ہو چکا۔ عوامی لباس کی جگہ پینٹ شرٹ نے لے لی ہے۔ پنجاب کے نظام ِ تعلیم میں اٹھائے گئے حالیہ انقلابی اقدامات میں سے ایک لڑکوں کے ہائی سکولوں میں خواتین اساتذہ کی تقرری ہے۔ بھاگسار سکول میں دو خواتین ٹیچر فرائض سرانجام دے رہی ہیں، اور یہ خوش آئند پیش رفت ہے۔
تاہم دو انتہائی نمایاں تبدیلیاں ایسی ہیں جن کی طرف ہر کسی کی توجہ ضرور جاتی ہے، اور میراخیال ہے کہ صوبے بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ تبدیلی ہویدا ہے۔ ان میں سے پہلی یہاں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہے، حالانکہ پرائیویٹ سکول بھی ہر جگہ مشروم گروتھ رکھتے ہیں۔ اس وقت اس ہائی سکول میں پانچ سو سے زائد طلبہ زیر ِ تعلیم ہیں۔ دیوار پر بنے ہوئے ایک بلیک بورڈ پر روزانہ حاضری سفید چاک سے درج کی جاتی ہے۔ جب میں حال ہی میں وہاں گیا تو اُس دن حاضر ی 94 فیصد تھی۔یہاں بچوں کو داخل کرانے کی ایک وجہ مقامی افراد کی غربت بھی ہوسکتی ہے ، لیکن اہم بات یہ کہ لوگ اس سکول سے عقیدت رکھتے ہیں،اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت اہم فیکٹر ہے۔ جو قوم اپنے تعلیمی اداروںسے محبت کرنے لگے، اُس کی ترقی میں دیر تو ہوسکتی ہے، لیکن ترقی اُس کا مقدر ہوتی ہے۔ مقامی لوگ اس کی ترقی میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور اہم مواقع پر مقامی افراد کی ایک معقول تعداد یہاں آتی ہے۔ یوم ِ آزادی کے موقع پر کم و بیش علاقے کے تمام افراد یہاںآتے اور اس کے میدان میں بیٹھ کر مقررین کی آزادی کے موضوع پر تقاریر سنتے ہیں۔ اس کے علاوہ مخیرحضرات کی طرف سے پکائے ہوئے کھانوںسے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دوسری اہم تبدیلی جدید ٹیکنالوجی کی آمد ہے۔ یہاں طلبہ کے لیے ایک جدید کمپیوٹر لیب ہے جہاںوہ کمپیوٹر کا استعمال سیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی نے ملک کے سکول سسٹم کو متاثر کیا ، چنانچہ حکومت نے تمام اداروںکو حفاظتی اقدامات کی ہدایت کی۔ اس سکول، جہاں پانچ سو بچے زیر ِ تعلیم ہیں، کی دیواریں اونچی اٹھائی گئی ہیں اور ان پر خاردار تار لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کیمرے بھی نصب ہیں جن کی کوریج ہیڈماسٹر صاحب کی میزپر رکھے گئے مانیٹر پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان اقدامات پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی ہوگی۔ جہاں تک تعلیم کے معیار کا تعلق ہے تو اس پر تبصرہ کرنا مشکل امر ہے ، لیکن اگر امتحانی نتائج کو تعلیم کے معیار کا پیمانہ مان لیا جائے تو میٹرک کے امتحان میں کامیابی کا تناسب 90 فیصد ہے۔
یہاں سیکھنے کے لیے تین سبق ہیں۔ پہلا یہ کہ سکول کی قیادت سے نظم وضبط، تعلیمی ماحول اور اساتذہ کے طلبہ کے ساتھ رویے میں بہت فرق پڑتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ تمام آبادی کو مقامی تعلیمی ادارے میں دلچسپی لینی چاہیے۔ سکول انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ اہم مواقع پر مقامی افراد ،خاص طور پر جو وہاں کے سابق طلبہ ہوں، کو مدعوکرے۔ آخرمیں، وسائل کی فراہمی اور اچھے طریقے سے خرچ کرنے سے ان کی حالت میں تبدیلی برپا کی جاسکتی ہے۔ عوام کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سرکاری سکول کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر اُن کی ترقی اور کامیابی کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا ہو گا۔ یقینا صوبے کے سرکاری سکولوں میں سب اچھا نہیں۔ بہت سی بہتری کی گنجائش موجود ہے، لیکن اہم بات یہ ہے موجودہ صوبائی حکومت ان کی بہتری کا جذبہ رکھتی ہے۔