"RBC" (space) message & send to 7575

شراکت داری کا نیا دور

گزشتہ چھ عشروںکے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ تین مرتبہ سٹریٹیجک شراکت داری اور اس کی قیادت میں بننے والے الائنس میں شریک ہوا۔ ان دونوں ریاستوں کے درمیان ایک دوسرے کو گلے لگانے، پیچھے ہٹانے اور پھر گلے لگانے کا رجحان دوطرفہ ٹریفک کی مانند ہے۔ ایسے تعلقات دو طرفہ لین دین کے بغیر قائم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں کسی ایک فریق کا قطعی فائدہ اور دوسرے کا قطعی نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کو آزادی کے بعد امریکہ سے مالی اور فوجی امداد کی ضرورت تھی تاکہ اپنی سالمیت کا تحفظ کرسکے، تو دوسری طرف امریکہ کو خطے میں ایک ایسے شراکت دار کی تلاش تھی جو سوویت یونین کی توسیع پسندی کے عزائم کا راستہ روک سکے۔ دونوں کی نگاہ ِ انتخاب ایک دوسرے پر پڑی۔ اس کام کے لیے پاکستان بہت موزوں ریاست تھی کیونکہ امریکہ یہاں سے چین پر بھی نظر رکھنا چاہتا تھا۔ بہت سے تجزیہ کار پاکستان کے شروع سے ہی امریکہ کی طرف جھکائو کے ناقد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ماسکو کی پیش کش مسترد کرنا دانائی نہیں تھی۔ وہ تنقید تو بہت کرتے ہیں لیکن اُن کی طرف سے کبھی دلیل کے ساتھ بات نہیں کی گئی کہ اگر پاکستان اُن معروضی حالات میں امریکہ کی طرف جھکائو نہ رکھتا تو اس کے پاس دوسرا دستیاب متبادل کیا تھا اور وہ درکار معاونت کہاں سے حاصل کرتا؟ کیا دہلی کے انتہائی قریب ماسکو اُس دور میں پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرسکتا تھا؟
میرے خیال میں ہماری امریکہ اور دیگر مغربی اقوا م کے ساتھ شراکت داری نے ہماری تاریخ کے بہت نازک لمحات میں ہمیں اپنے ملک و قوم کی تعمیر کے قابل بنایا، وگرنہ آزادی کے بعد ہمارے حالات بہت دگرگوں تھے۔ اگرچہ مغربی اور امریکی تعاون کا زیادہ تر فوکس فوجی امداد پر تھا (اور اس کی ہمیں ضرورت بھی تھی) لیکن معاشی امداد، جس میں ہمارے ہاں صنعت کاری اور معاشی ترقیاتی منصوبوں کا پہلا مرحلہ شامل تھا، کے لیے ہم مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے شکر گزار ہیں۔ جب یہ بیانیہ آگے بڑھایا جاتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کاجھکائو مشرق ِوسطیٰ کی اسلامی ریاستوں کی طرف ہونا چاہیے تھا تو یہ تصور کل بھی اتنا ہی بوگس تھا جتنا آج۔ یہ ریاستیں دفاعی معاملات میں ہمارے ساتھ کیا تعاون کرسکتی تھیں (یا کر سکتی ہیں) جو خود دفاع اور سکیورٹی کے لیے امریکہ پر تکیہ کرتی ہوں؟ کچھ عرب ریاستوں نے سکیورٹی کے لیے سوویت یونین کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عالمی معاملات میں اُن ریاستوں کا جھکائو پاکستان کی بجائے ہندوستان کی طرف دیکھنے میں آیا۔ 
ایک بات طے ہے کہ عالمی سطح پر ریاستوں کے تعلقات میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، ہر ریاست اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ اس میدان میں ''برادرانہ تعلقات‘‘ اور مذہبی وابستگیوں کی بھی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ جب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ریاستوں کے تعلقات میں بہتری آئی اور امریکہ نے اپنی علاقائی ترجیحات پر نظر ِ ثانی کی تو پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا۔ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں بھی پاکستان جانتا تھا کہ چین کے ساتھ اچھے تعلقات کی کیا اہمیت ہے۔ یہ چین کے قریب ہوتا گیا، بلکہ اس کے تعاون سے امریکہ بھی چین کے قریب ہوا۔ دونوں افغان جنگوں کے نتیجے میں افغانستان میں حکومتوں کی تبدیلی عمل میں آئی۔ ان دونوں جنگوں میں پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا؛ تاہم اس کے راستے میں بہت سی پیچیدگیاں آئیں۔ شراکت کے باوجود پاکستان بہت سے معاملات میں برسر ِالزام رہا۔ اس دوران پاکستان بھی امریکی عزائم کے بارے میں واضح نہ ہوسکا۔ مختصر یہ کہ طرفین ایک دوسرے پر شک کرتے رہے، لیکن تعاون جاری رہا۔ 
یہ رجحان اس حقیت کی غمازی کرتا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر عائد کرکے اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے دنیا بھر سے حلیف افغانستان میں ناکام ہوچکے ہیں، اگر وہ اپنے مہیب عسکری اور بے پناہ مالی وسائل جھونکنے کے باوجود پر امن اور مستحکم افغانستان تشکیل دینے میں ناکام رہے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر ''ڈومور‘‘ کا دبائو ڈالتے رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کی حلیف طاقتیں پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کرتی رہیں۔ دوسری 
طرف پاکستان نے بھی کسی حد تک اپنا مفاد دیکھا اور اس نے بھی افغانوں پر مبینہ طور پر اُس طرح دبائو نہیں ڈالا جیسے اسے کہا جا رہا تھا۔ تاہم اس کے پیچھے کچھ تاریخی اور جغرافیائی حقائق کارفرما رہے۔ تاریخی طور پر افغانستان مختلف جارح طاقتوں کا قبرستان ثابت ہوا۔ اس کے سخت جغرافیائی خد وخال حملہ آوروںکے لیے پیش قدمی مشکل بنادیتے ہیں۔ 
افغانستان کی موجودہ صورت ِحال ، مشرقِ وسطیٰ کی خراب ہوتی ہوئی سیاسی اور سماجی صورت ِحال، خطے میں مذہبی انتہا پسندی کا عروج اور روس کی پیش قدمی جیسے عوامل ایک مرتبہ پھر پاکستان اور امریکہ کوقریب لاسکتے ہیں۔ پاکستان بھی مشرق ِوسطیٰ کی صورت ِحال کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے۔ بہت سے مسائل کے باوجود پاکستان ایک طاقتور اور توانا معاشرہ رکھتا ہے۔ اس نے بدترین دہشت گردی کی جنگ کی تمازت برداشت کرکے اس کی لہر کو روک دیا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں موجود ہیں جہاں ہمارے سامنے شراکت کے مختلف آپشنز موجود ہیں۔ پاکستان چین کا دوست ہے اور امریکہ کا بھی شراکت دار۔ اس کے روس کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ اس کی موجودہ سیاسی قیادت حالات خراب ہونے سے پہلے تک بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتی تھی۔ شاید یہی درست حقیقت پسندانہ پالیسی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں