"RBC" (space) message & send to 7575

فاٹا صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟

جغرافیائی خطے یعنی وفاقی نظام کے تحت کنٹرول کی جانے والی ایجنسیوں اور قبائلی آبادیوں‘ سرحد ی علاقوں اور ان علاقوں میں تاریخی طور پر رائج سرداری نظام کو ایک الگ صوبے کا روپ دے دینا چاہیے کیونکہ یہ اس پیش رفت کے لیے مناسب ترین وقت ہے۔ اس سے پہلے گلگت بلتستان اپنے تاریخی دعوے اور فطری حقوق کی بنا پر آئین کے تفویض کردہ اختیارات رکھنے والا ایک صوبہ بن چکا ہے۔ یہ یقینا سابق حکومت کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ موجودہ حکومت اس سے بھاری مینڈیٹ رکھتی ہے؛ چنانچہ اس سے آئینی طور پر ملک کو درست راستے پر ڈالنے کی توقع تھی، لیکن یہ بہت سے سیاسی مسائل کے گرداب میں خود کو الجھانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس سوال کی طرف آئوں کہ ہمارے حکمران فاٹا میں لائی جانے والے ''اصلاحات‘‘ کے لیے پیہم کمیٹیاں (ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے کیا) قائم کرنے کا شغف کیوں رکھتے ہیں۔ وفاقی علاقوں کو نئے صوبوں کی صورت میں ڈھالنے کے لیے دو نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ 
پہلا نکتہ یہ ہے کہ سماجی گروہوں کی شناخت اور ان کی تاریخ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُنہیں ایک الگ صوبے کی شکل دی جائے۔ کئی صدیوں سے یہ گروہ بہت سے قبیلوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی مخصوص علاقے میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ اگرچہ اُس خطے کے ثقافتی خدوخال بہت محدود ہوتے ہیں‘ لیکن اُنہیں ان پر فخر ہے۔ ان کی ثقافت اور تمدن، زبان اور رسوم و رواج کی جڑیں پشتون کلچر میں گڑی ہوئی ہیں۔ اُن کے علاقائی تصورات اُتنے قدیم ہیں جتنا کہ اُن کا بیرونی دنیا سے تعلق۔ ان کا تعلق افغان اور وسط ایشیا کی حملہ آور افواج کے علاوہ برطانوی دور کی نوآبادتی قوت کی اس علاقے میں یلغار اور آزاد پاکستان کی طرف سے اُنہیں ''بفر زون‘‘ کے طور پر کنٹرول کرنے کی کوششوں سے ہے۔ 
فاٹا کے قبائلی علاقوں سے عوام کی ملک کے دیگر حصوں، خاص طور پر خیبر پختونخوا، میں پیہم ہجرت اور سست روی سے لیکن یقینی طور پر ملک کے سماجی اور معاشی خدوخال سے ہم آہنگی نے اُن کی قبائلی شناخت ختم نہیں کی اور نہ ہی اسے تسلیم کیے جانے کی ضرورت کو دبایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ علاقہ طویل عرصہ سے میدان جنگ کی گزرگاہ رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہونے والی سوویت افغان جنگ میں پاکستان نے صف اوّل کی ریاست کا کردار ادا کیا، لیکن سوویت فورسز کے انخلا کے بعد یہ خطے مزید افراتفری کا شکار ہو گئے۔ دنیا بھر سے جہادی دستے یہاں آئے تھے۔ اُنھوں نے مقامی جہادیوں سے رابطے بڑھائے اور نظریاتی ہم آہنگی پیدا کی۔ اس تبدیلی نے سماجی طاقت کا بیلنس بگاڑ کر رکھ دیا۔ یہاں قبائلی سرداروں کی اتھارٹی کے بجائے جدید ہتھیاروں اور قدیم سوچ سے لیس انتہا پسندوں کے جنگجو دستے دکھائی دینے لگے۔ 
پہلی افغان جنگ کے اثرات نے اس خطے کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ غیر ملکی تعاون سے پروان چڑھنے والے انتہا پسند اور افغان جہاد کے عناصر کی وجہ سے مقامی طور پر بھی شدت پسندی میں اضافہ ہونے لگا۔ ان مقامی انتہا پسندوں کی صفوں میں پاکستان بھر سے نوجوان آئے‘ اور مختلف حلقوں نے انہیں مالی معاونت فراہم کی‘ یہاں تک کہ وہ ایک خوفناک عسکری طاقت بن گئے۔ انھوں نے سمگلنگ، منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کو ایک منظم کاروبار کی شکل دی اور ان تمام جرائم کو شدت پسندی کے نظریے کے نیچے چھپانے میں اس طرح کامیاب رہے کہ موجودہ آپریشن سے پہلے تک بہت سے حلقے اور سیاسی جماعتیں اُنہیں مذہب کے مجاہدین سمجھتی تھیں۔ 
اب ایک طویل اور مشکل آپریشن کے بعد اس علاقے پر حکومت نے اپنی عمل داری قائم کر دی ہے‘ لیکن یہاں کی مقامی آبادی خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ تقریباً تمام خاندان بکھرے ہوئے اور پریشان ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں موجود آئی ڈی پیز میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہی ہے۔ اب یہ طویل جنگ سے نجات اور سکون چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے پہلے افغان جہاد کے بعد دوسری افغان جنگ، جب امریکہ نے طالبان کا تختہ الٹنے اور القاعدہ کو سزا دینے کے لیے نیٹو فورسز کی مدد سے حملہ کیا، کی تمازت برداشت کی ہے۔ ان جنگوں کی وجہ سے طاقت اور اختیار کا پرانا ڈھانچہ، جو میرے نزدیک بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے موجودہ خرابیوں کا کسی حد تک ذمہ دار تھا، تباہ ہو چکا ہے۔ دراصل ماضی کی روایت میں دھنسا ہوا کوئی معاشرہ بھی حال کے تقاضوں سے دور رہتا ہے اور قدیم فکر اور جدید زندگی کی جھلک بہت سے پریشان کن نظریات کو جنم دیتی ہے۔ یہاں نوآبادیاتی دور کے پولیٹیکل ایجنٹ اور فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز کی اہمیت ختم ہو چکی۔ 
ہمیں ایک دلیرانہ اور پُراعتماد حکمت عملی چاہیے تاکہ فاٹا کو ملک کے پانچویں صوبے کا درجہ مل سکے۔ اس کا نام ''سرحد‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر کیے جانے والے اعتراضات، جیسا کہ علاقے کی پسماندگی، تعلیم کی کمی، خیبر پختونخوا کے ساتھ مشترکہ نسلی ادغام اور سکیورٹی وغیرہ کے مسائل زیادہ وزن نہیں رکھتے۔ ان افراد کی شناخت تسلیم کیے جانے کے لیے یہ سب سے موزوں وقت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں