پیرس کے شہریوں پر ڈھایا جانے والا ستم سفاکی کا ویسا ہی شرمناک مظہر ہے‘ جیسے پاکستان میں جاری قتل عام۔ کچھ مخصوص گروہوں کو انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہوئے نیم خواندہ ملّائوں اور نااہل سیاست دانوں نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے قریب کر دیا ہے۔ دراصل بہت سی مسلمان ریاستیں داخلی طور پر خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ ان میں سے کچھ، جیسا کہ افغانستان، کئی عشروں سے عالمی طاقتوں کی جنگوں کا شکار ہیں۔ اس وقت شام، عراق، لیبیا اور یمن افراتفری اور شورش کی لپیٹ میں ہیں۔ اس عالم میں ذہن میں سوچ پیدا ہوتی ہے کہ خرابی کہاں ہے؟
اندازے کے مطابق دنیا کے ایک ارب مسلمانوں کی اوسط عمر تیس سال سے کم ہے۔ ایسے افراد میں‘ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمیں اپنے حکمرانوں اور ان کے عالمی حلیفوں سے ایک سوال پوچھنا ہے کہ آپ نے ان نوجوانوں کے لیے کیا کیا ہے؟ کیا اُنہیں مناسب تعلیم دی گئی؟ جو پڑھے لکھے ہیں، اُن کو دی گئی تعلیم کا کیا معیار ہے؟ کیا تعلیم حاصل کرنے یا کوئی ہنر سیکھنے کے بعد اُن کے پاس ملازمت کے مواقع ہیں؟ کیا اُنھوں نے جدید سائنسی علوم حاصل کیے ہیں؟ کیا نت نئی ٹیکنالوجی اور مہارت تک ان کی رسائی ہے؟ کیا وہ علوم و فنون کی اس دنیا میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے قابل ہیں؟ کیا وہ مہذب دنیا کے ہم قدم چل سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے زیادہ تر ممالک میں نوجوانوں کے حوالے سے مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے۔
نوجوانوں کو تعلیم کے مواقع سے محروم کرنا اُن کی فطری صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد وہ جدید معاشروں میں میسر مواقع سے استفادہ کرنے اور اپنا مقام بنانے کے قابل نہیں رہتے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کسی سویلین یا فوجی حکومت نے تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں بنایا، بلکہ بعض حکومتوں نے جان بوجھ کر اس سے مجرمانہ غفلت برتی۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی قوم نے بھی جدید تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کی؛ تاہم اس وقت تعلیم صرف ترقی ہی نہیں، جدید تہذیب کے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے سامنے بنیادی سوال ترقی سے کہیں بڑھ کر، تہذیبی ہے۔ کیا ہم جدید تہذیب کے ہم قدم ہونے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم فکری پسماندگی کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکتے ہیں؟ آیا ذہنی پسماندگی کی وجہ سے پروان چڑھنے والا تعصب فہم و فراست کے آئینے کو مکدر تو نہیں کر رہا ہے؟ موجودہ مسائل کے کسی بھی عملی حل تک پہنچنا ناممکن ہو گا‘ جب تک ان سوالات کے جواب تلاش نہیں کر لیے جاتے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان مسائل پر غور کرنے کی راہ بھی مسدود کر دی گئی ہے۔
موجودہ شورش، فرقہ وارانہ تعصبات، انتہا پسندی، سیاسی تشدد اور جنونیت اس گناہ کی سزا ہیں‘ جسے سادہ سے الفاظ میں جہالت کہتے ہیں۔ یہ وہ گناہ ہے جس کا ارتکاب ہمارے حکمرانوں نے بوجوہ اپنی عوام کے خلاف کیا۔ ہم نے غریب اور پسماندہ خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے اُنہیں مدرسوں کے حوالے کر دیا، جن میں سے بعض میں نیم خواندہ ملائوں نے اُن کی ذہنیت کو ایک خاص نہج پر اس طرح ڈھال دیا ہے کہ اب تبدیلی ممکن دکھائی ہی نہیں دیتی؛ چنانچہ فوجی آپریشن کے باوجود ہماری سلامتی کو لاحق خطرہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطرے کو فروغ دینے والا انفراسٹرکچر معاشرے میں بہت سی شکلوں میں پھیلا ہوا ہے۔
مسلمان نوجوان کو اس حال تک پہنچانے میں تین عوامل کا عمل دخل ہے۔ پہلا یہ کہ سیاسی طبقے نے نہ صرف وسائل کو لوٹا‘ بلکہ لوٹ مار کو رواج دے کر معاشرے کی قدروں کو بھی مسخ کر دیا ہے۔ اب ایمانداری اور محنت سے اپنا کیریئر بنانے کی باتیں قصہ ٔ پارینہ لگتی ہیں۔ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ ان کے حکمران غیر ملکی اکائونٹس میں ہوشربا رقوم رکھتے ہیں‘ جبکہ ان کا ملک بھاری قرضوں تلے دبا ہوا ہے‘ تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف شاہانہ زندگی ہو اور دوسری طرف غربت اور افلاس کی دلدل تو ذہن مثبت انداز فکر سے محروم ہو جاتا ہے۔ ملائشیا سے لے کر مراکش تک بہت سے لوگ نفرت اور تعصبات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان میں مغربی ممالک میں مضبوط جڑیں رکھنے والے بعض گروہوں بھی بہت فعال ہیں۔ یہ طبقہ اسلام کو انتہائی تصورات رکھنے والا مذہب بنا کر پیش کرتا اور نفرت کا زہر نوجوان ذہنوں میں اتارتا ہے۔ اس طبقے کو پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ یہ عوامی مقامات، میڈیا کے بعض حصوں اور عوامی ابلاغ کے مراکز کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ ان کا تشریح کردہ معاملہ ہی حقانیت کا درجہ پاتا ہے‘ اور ان کی تشریح کو فکری اور علمی اعتبار سے بھی چیلنج کرنے والا معتوب قرار پاتا ہے۔ ان کے اداروں تک قانون کے لمبے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ، جیسا کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کا حشر دیکھا، یہاں تک کہ آرمی چیف کو‘ حکومت کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانا پڑا۔
آخر میں، مغربی طاقتیں بھی اس سانحے کے الزام سے نہیں بچ سکتیں۔ اُنھوں نے اسلامی دنیا کے انتہائی بدعنوان اور آمر حکمرانوں کی عشروں تک سرپرستی کی۔ ان حکمرانوں نے مغربی آقائوں کے بل بوتے پر اپنے عوام کو نظر انداز کیا‘ اور حکومت کرتے رہے۔ اس کے بعد انتہائی حماقت کا ارتکاب کرتے ہوئے عراق اور افغانستان پر چڑھائی کر دی، لیبیا کو برباد کر دیا اور شام میں مداخلت کرتے ہوئے اسد حکومت کو اتنا کمزور کر دیا کہ پیدا ہونے والے خلا میں داعش جیسے عفریت نے سر اٹھایا۔ ان سب نے داعش کو مل کر ختم کرنے کے علاوہ اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرنا ہے۔