میں اپنی بات کاآغاز سرونسٹن چرچل کے جمہوریت پر کیے گئے مشہور تبصرے سے کرتا ہوں...''کہاجاتا ہے‘ جمہوریت حکومت کی وہ بدترین قسم ہے جس سے بدتر صرف وہی حکومتیں ہوتی ہیں جنہیں پہلے آزمایا جا چکا ہوتا ہے‘‘۔ پاکستان میں عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے لوگ چھوٹے بڑے مسائل پر جمہوری نظام اور جمہوری حکومتوں کے خلاف شکایت کرنے لگتے ہیں۔ عوام مجموعی طور پر حکومت وقت کی کارکردگی سے نالاں رہتے ہیں۔ جب بھی انتخابات کے بعد حکومت قائم ہوتی ہے تو زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ عوامی توقعات بکھرنے لگتی ہیں، امیدوں کے پھول مرجھانے لگتے ہیں، خواہشات کے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ عوام اس کا غصہ جمہوریت پر اتارتے ہوئے اس سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ مورثی رہنما، سیاست دان، سیاسی جماعتیں، سیاسی خانوادے، اشرافیہ اور طاقتور گروہ اپنے کریڈٹ پر ایسی کوئی کارکردگی نہیں رکھتے‘ جسے وہ عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔ ان کے پاس بلند بانگ نعرے اور پست ترین کارکردگی ہوتی ہے‘ لیکن عوام اُنہیں بار بار منتخب کرنے پر مجبور ہیں؛ چنانچہ اس بات کی سمجھ آتی ہے‘ اگر لوگ جمہوریت سے بددل ہو کر کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیں۔
ہمارے سماجی اور جمہوری پس منظر میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے، اور اس کا اطلاق دیگر مسلمان معاشروں پر بھی ہوتا ہے‘ کہ ناقص حکمرانی اور بدنظمی کی وجہ سے انتہا پسندی، تشدد اور جنونیت کو فروغ ملا ہے۔ شاید ناقص حکمرانی ایک کمزور لفظ ہے، ورنہ پاکستان میں حکمران اشرافیہ جس قسم کی لوٹ مار کرتی ہے‘ اور اسی لوٹ مار کی دولت سے آئندہ انتخابات جیت کر پھر آ جاتی ہے، اس کے لیے عوامی حلقوں میں ناقابل اشاعت لیکن قابل فہم الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طبقے نے ملکی دولت لوٹ کر ایک ایسا نیٹ ورک قائم کر لیا ہے‘ جسے توڑنا اگر ناممکن نہیں تو بھی بہت دشوار ہو چکا ہے۔ ان میں سے بہت کم اس ریاست، جس پر وہ حکمرانی کرتے ہیں، کے قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ وہ اس ملک میں صرف اپنی تجوریاں بھرنے اور دیگر ممالک میں اپنے کاروبار چمکانے آتے ہیں۔ جب اُن پر ملک میں مشکل پڑتی ہے‘ تو وہ دوسرے ممالک میں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح قانون کے ہاتھ اُن تک نہیں پہنچ پاتے۔ کچھ عرصے بعد عوام کے حافظے سے ان کی لوٹ مار کے واقعات محو ہو جاتے ہیں‘ اور میڈیا کے کچھ حلقوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ خود کو جمہوریت کا چمپئن قرار دے کر بہت طمطراق سے واپس آ کر پھر اقتدار پر فائز بلکہ قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ چکر ہم گزشتہ تین دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہر مسلم معاشرے میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی اصل وجہ وہاں تعلیم، قانون کی حکمرانی، گورننس اور دیگر سماجی قدروں کا فقدان ہے۔ اشرافیہ کے غیر قانونی برتائو اور قانون سے بچ نکلنے کی صلاحیت نہ صرف سیاست کو پامال کرتی ہے‘ بلکہ معاشرے کو اسی لت پر لگا دیتی ہے۔ لوگ یہ حقیقت جان لیتے ہیں کہ دولت اور طاقت حاصل کرتے ہوئے وہ ریاست کے قانون سے محفوظ رہ سکتے ہیں؛ چنانچہ آج ہمارے معاشرے میں حلال اور حرام کا فرق مٹ چکا ہے۔ ہر شخص راتوں رات امیر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اخلاقی اور سماجی قدروں کا زوال، اداروں کی تباہی اور قانون کی کمزوری کے اثرات معاشرے کے تمام شعبوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست میں یہ جملے اکثر سنائی دیتے ہیں... ''ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا، کسی عدالت نے ہمیں سزا نہیں سنائی ہے‘‘... وغیرہ‘ اس امر کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہیں کہ لوٹ مار کے بعد ڈھٹائی کسے کہتے ہیں۔ یہ صورت حال نظام کی تباہی کی طرف اٹھنے والا ایک قدم ہے۔ دراصل دولت کے بل بوتے پر اس طبقے کے اقتدار پر فائز ہونے کے عمل نے عوام کو دولت کی طاقت دکھا دی ہے۔ دوسری طرف اقتدار میں آنے کے بعد ناقص کارکردگی سے پیدا ہونے والے خلا میں انتہا پسندی پروان چڑھنے لگتی ہے۔ انتہا پسند بہت آسانی سے عام افراد کو بتاتے رہتے ہیں کہ دیکھ لیں، یہ ہے مغربی جمہوریت۔ عوام یقینا اپنی نظروں سے نااہل حکمرانوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ انتہا پسندوں کی باتوں میں آ کر کسی سنہرے نظام کی آس لگا لیتے ہیں۔ اُنہیں باور کرا دیا جاتا ہے کہ حکمران دراصل ''مغربی طاقتوں کے آلہ کار‘‘ ہیں؛ چنانچہ ان سے اور اس نظام سے جان چھڑانا ضروری ہے۔ یہاں سے دہشت گردی کا راستہ شروع ہوتا ہے۔ آپ لاکھ جنگ و جدل کر لیں، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، انتہا پسندی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔
ہم ایسے سماجی ماحول میں یہ بات بھی کر سکتے ہیں کہ یہاں پسماندہ طبقات کے نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور اچھی زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کی سہولت میسر نہیں۔ دوسری طرف اشرافیہ ایک پُرتعیش زندگی بسر کرتی ہے۔ یقینا یہ تمام مسائل پاکستان کے آگے بڑھنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہیں۔ان مسائل کو نظر انداز کرنے پر جمہوری طبقہ دراصل جمہوریت کو نقصان پہنچاتا ہے حالانکہ یہ مسائل اُن کی نااہلی، نہ کہ جمہوریت، نے پیدا کیے ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالم میں ہمارے پاس جمہوریت کا متبادل کیا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ اس نظام حکومت کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتا۔ فوجی مداخلت کے چار مواقع، جمہوریت کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی چار تحریکوں اور چار حکومتوں کے بعد پاکستان میں جمہوریت ''ڈلفالٹ پوزیشن‘‘ کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اور مسلم ریاست نے جمہوریت کے لیے اتنی جدوجہد نہیں کی ہو گی‘ جتنی پاکستان نے۔ ہمارے پاس جمہوریت میں عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے وسائل موجود ہیں۔ ہمیں اچھی جمہوریتوں کی طرح قانون کی حکمرانی اور اچھے سیاست دان درکار ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کا شعور بیدار کیا جائے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے میڈیا نے عوامی شعور کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ میڈیا کا فوکس جمہوریت کے اہم ترین پہلو 'قانون کی حکمرانی‘ کی طرف بھی ہو گا۔ اس وقت ہمیں سب سے اہم یہی چیز درکار ہے۔ احتساب اور قانون کی بالادستی‘ دونوں پاکستان کے خوشحال مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔