عالمی برادری اور علاقائی طاقتیں‘ جن کے افغانستان میں ہائی سٹیکس ہیں، مختلف افغان دھڑوں اور حکومت، یا حکومت کے نام پر جو انتظام بھی وہاں موجود ہے، کے درمیان مفاہمت کی کوشش کریں گے۔ گزشتہ پینتیس برسوں سے افغان دھڑے، علاقائی کھلاڑی اور عالمی طاقتیں ایک جانی پہچانی پالیسی پر کاربند ہیں، جو کہ طاقت کا استعمال، مسلح گروہوں کی سرپرستی اور کمزور حکومت کی حمایت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان کی حکومت عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی، بلکہ اسے غیر ملکی طاقتوں کی آشیرباد قائم رکھتی ہے۔ ایسی حکومتوں نے نہ تو مسائل حل کیے ہیں اور نہ ہی آئندہ یہ تجربہ کامیاب ہو گا۔ درحقیقت افغانستان کو ایک نمائندہ حکومت چاہیے۔
افغان مسئلے کے حل کے لیے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے افہام و تفہیم درکار ہے۔ اس ضمن میں پانچ نمایاں حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ ان کی واضح تفہیم کے بغیر کوئی سیاست دان، پالیسی ساز یا کوئی ایسی طاقت، جو افغان عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی لیتی ہو، اس جنگ زدہ ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ پہلی حقیقت جو سامنے رکھنی ہو گی، یہ ہے کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی، اگرچہ امریکہ اور اس کے کولیشن پارٹنر جنگ بند کرکے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر یہاں سے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اہداف کا حصول نہیں بلکہ طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ سے ہونے والی تھکاوٹ ہے۔ درحقیقت
امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو اپنی سرزمین سے دور محض ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر جنگ جیتنے کا تجربہ بہت مہنگا پڑا ہے۔ ڈیڑھ عشرے کی جنگ نے بھی طالبان کی قوت کو اتنا فیصلہ کن نقصان نہیں پہنچایا کہ اُن سے کوئی بات منوائی جا سکے۔ خدشہ ہے کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد طالبان کابل پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور افغان نیشنل آرمی، طالبان اور سوویت دور کے وار لارڈز کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اب یہ جنگ پشتون آبادی کی اکثریتی علاقوں، جہاں سے کبھی افغان مجاہدین ابھرے تھے، تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ قندوز پر مختصر مدت کے لیے قبضہ اس حقیقت کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان افغانستان میں پشتون نسل کے گروہ شامل تھے؛ تاہم آج ماضی کے برعکس اس میں تاجک، ازبک اور دیگر غیر پشتون گروہ بھی شامل ہیں؛ چنانچہ تحریک طالبان افغانستان امریکی افواج کی روانگی کے بعد محدود علاقائی فیصلے کرنے کی بجائے پورے افغانستان کے سیاسی اور سماجی خدوخال کو سامنے رکھے گی، اور، کم ازکم یہ امید کرنے میں کوئی حرج نہیں، ہو سکتا ہے کہ اُس کی مذہبی شدت پسندی میں قدرے کمی دکھائی دے۔ چوتھی حقیقت یہ ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز، جن پر امریکہ اور مغربی ریاستوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، وہ عسکری طور پر طالبان کو شکست دینے کے لیے قابل نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل نہیں ہونا چاہیے کہ جو طالبان امریکہ اور نیٹو کی مہیب عسکری طاقت کا ایک عشرے سے زائد وقت تک مقابلہ کر سکتے ہیں، اُن کے لیے افغان نیشنل آرمی کو شکست دینا چنداں مشکل نہ ہو گا۔ اس لیے عقل مندی اسی میں ہے کہ کسی کو شکست دینے کی بجائے افغانستان سے جنگ کے حالات ختم کیے جائیں۔ پانچویں حقیقت یہ ہے کہ اسلحے سے لبریز اس ملک میں سو فیصد امن ممکن نہیں ہے۔
تمام داخلی سٹیک ہولڈرز اور بیرونی طاقتوں کی ان حقائق پر نگاہ ہونی چاہیے۔ افغانستان کا مسئلہ ہمیشہ سے بیرونی ممالک کی مداخلت رہی ہے‘ جو مختلف دھڑوں کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنے مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ افغانستان کو کوئی غیر ملکی طاقت بھی مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر پائی ہے۔ کئی عشروں کے تجربات کے بعد آج اب افغانستان میں کوئی سٹریٹیجک گہرائی تلاش کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ دوسرا سبق یہ بھی حاصل ہوا ہے کہ محض طاقت کے زور سے افغانستان کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ اس ملک کے مشکل جغرافیائی حالات اسے روایتی جنگ کے لیے غیر موزوں بناتے ہیں؛ چنانچہ اس کا اب تک کوئی بھی فاتح ثابت نہیںہو سکا، اور شاید ہو گا بھی نہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ افغان عوام نے تین عالمی طاقتوں کو شکست دے کر نہ تو کچھ حاصل کیا ہے‘ اور نہ ہی کوئی سبق سیکھا ہے کہ آخر اُن پر چڑھائی کیوں کی جاتی ہے؟ آج اُن کی حالت کسی فاتح کی نہیں، جنگ سے تباہ شدہ ملک کی ہے جہاں عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں۔
افغان مسئلے کا حقیقت پسندانہ اور انسانی اقدار کے نزدیک ترین حل یہ ہے کہ اس میں جنگ جیتنے اور مکمل امن کا خواب پورا کرنے کی بجائے سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے۔ افغانستان کے داخلی دھڑے، جیسا کہ طالبان اور افغان حکومت کو سوچنا ہو گا کہ وہ کسی کو فتح نہیں کر سکتے ہیں، اور اس کوشش میں معصوم شہریوں کا بہت خون بہہ چکا، اب امن سے بات کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان، چین اور امریکہ نے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ مذاکرات کا پہلا دور، جو مری میں ہوا، ملاّ عمر کی وفات کی خبر سے تعطل کا شکار ہو گیا، لیکن اس جمود کو توڑنا ہو گا۔ اگر کوئی یہ سوچتا تھا کہ ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے‘ اور وہ لڑتے لڑتے ختم ہو جائیں گے، تو اب تک اس کی سوچ غلط ثابت ہوئی ہے۔ اگر کابل طالبان کی دھڑے بندی کرتے ہوئے طالبان کو ختم کرنا چاہتا تھا یا ہے تو ایسا نہیں ہو گا۔ نہ تو پہلے اس پالیسی نے کام کیا تھا اور نہ ہی آئندہ کرے گی۔
افغان مسئلے کے حل کا نقطہ ٔ آغاز افہام و تفہیم میں مضمر ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں۔ ایک افغان حکومت، دوسرے طالبان اور تیسرے ملک کے شمالی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وارلارڈز۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت خود یکسوئی اور اتفاق سے تہی دامن ہے۔ صدر اشرف غنی کو قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ بدعنوانی کے الزامات بھی حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اس وقت غیر ملکی طاقتوں کے سامنے سب سے اہم کام افغانستان کو دھڑے بندی سے بچانا ہے‘ ورنہ یہاں خانہ جنگی کبھی ختم نہیں ہو پائے گی۔ کسی بیرونی طاقت کو کسی دھڑے کی سرپرستی کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ یہ افغان عوام کا ملک ہے، یہاں کسی کی سٹریٹیجک گہرائی نہیں ہے۔