کئی عشروںسے انہی سیاسی اداکاروں کا ڈرامہ بار بار دیکھنے اور ان کے وہی گھسے پٹے بیانات سننے کے بعد بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قسمت کا فیصلہ کن شعبدے بازوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سیاسی ٹولہ، وہی رہنما، وہی خاندان کم وبیش چھ عشروںسے ملک کے سفید وسیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں طویل عرصہ تک قائم رہنے والے مارشل لاکی چھتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی بہت خاندان سیاست کے اکھاڑے میں کودنے اور اپنی قسمت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران انتخابی سیاست کے ''نرخ‘‘ اتنے بڑھا دیے گئے کہ عام آدمی کا اس ''مارکیٹ ‘‘ میں داخلہ ممنوع ہوگیا۔
اس سدابہار سیاسی اشرافیہ نے ملنے والے مواقع اور لینے والے باریوں کے باوجود عوام، ملک اور ریاست کے لیے کیا کیا ہے؟ یہ کوئی بہت ادق سوال نہیں، اس کے جواب کے لیے آپ کو کسی ماہر کے تجزیے کی ضرورت نہیں۔ آپ بس یہ دیکھ لیں کہ ایک پارٹی کے رہنما دوسروں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ پی پی پی اور جنرل مشرف اوربعد میں پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان ہونے والی گرینڈ سیاسی مفاہمت سے پہلے اور بعد میں جمہوریت کی صفائی (صفایا؟) ہوگئی ۔ کہا گیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، اور اس انتقام کی زد میں عوام آئے۔ اس دوران سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے پر ایسا کون سے الزام ہے جو نہ لگایا ہو، لیکن برادرانہ تعاون کا یہ عالم ہے کہ مجال ہے کسی کے خلاف کوئی کارروائی دکھائی دے۔ ایسا لگتے ہوئے جمہوریت کے چشمہ ٔ حیواں سے سیراب ہوتے ہوئے اخلاقیات امر ہوجاتی ہے، جو مرضی کرلیں دامن آلودہ ہوتا ہی نہیں۔ ہر کسی کے ہاتھ میں کلین چٹ دیکھ کر عوام سوچنے لگتے ہیں کہ شاید اصل گناہ اُن سے ہی سرزد ہوگیا ہے جس کی یہ سزا ہے۔
دراصل کمزور اور کھوکھلی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ا س کا محور مفاد پرستی سے نہیں ہٹتا اورنہ ہی اس ڈھٹائی کے بحر ِ ناپیدا کنار میں ندامت یا پشیمانی کی کوئی لہر ابھرتی ہے۔ اگر ایک طرف اس سیاست کے پائوں بدعنوانی نامی اسپ تازی کی رکاب پر ہیں تو دوسری طرف اس کے ہاتھ میں کوئی لگام نہیں، مال سمیٹنے کے ''جنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے ، سب اچھا‘‘۔خواب زدہ نظروںسے تکنے والے عوام سنہری افق کو مستقبل کی نوید سمجھ کر گرد آلودراہوں پر گامزن رہتے ہیں۔ قہر یہ ہے کہ کئی عشروں کے بعد جمہوری عمل میں تسلسل دیکھنے میں آیا تھا۔ اب عوام کو پتہ چلا ہے کہ پہلے تو سیاست دانوں کا ایشو تھا کہ جمہوری تسلسل ہونا چاہیے ، لیکن اب اس کے ساتھ ہی سیاست نے عوام کے تمام مسائل سے نگاہیں چرالی ہیں۔ سیاسی تبدیلی کاتسلسل لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہورہا ، عوام کے حالات جوں کے توں اور ان کی قسمت کے ستارے سد ا گردش میں۔
یقینا ہماری سیاست میں کوئی نہ کوئی خامی ضرورہے۔ ہمارے سیاسی ادارے، سیاسی طبقہ اور انتخابات پر کچھ خاندانوں اور گروہوں کی اجارہ داری ہے۔ اس وقت جب کہ ملک میں جمہوری نظام کی ناکامی کا تاثر تقویت پارہا ہے، یکے بعددیگرے حکومتیں کرنے والے خاندانوں نے بہت سے سوالات کا جواب دینا ہے۔ اگر عوام اُن سے اپنے مسائل نہ کرنے پر جواب طلبی نہیں کرپائے تو بھی تاریخ کا بے رحم ممتحن اُن سے جمہوریت کی ناکامی پر ضرور سوال پوچھے گا۔ اس وقت ہماری جمہوریت لوٹ مار، سرکاری وسائل پر ہاتھ صاف کرنے اور مفاہمت کرتے ہوئے صاف بچ نکلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس وقت ملک کے مسائل اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اس کے بہت سے علاقوں پر حکومت کرنا ممکن نہیں، چنانچہ جمہوریت تیزی سے اپنا دائر ہ سمیٹتی ہوئی چند شہروں تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ پیدا ہونے والے خلا میں ہیبت ناک عفریت سراٹھا رہے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس ریاست کے ہاتھ سے موقع اور وقت ختم ہونے والا ہے۔
ستم یہ ہے کہ اس سیاسی اشرافیہ کے پاس عوام کو چکما دینے کے لیے بہت سی پالیسیاں ہیں۔ ان میں سے سب سے کارگر پاکستان کی ناکمامیوں (جو دراصل سیاسی اشرافیہ کی ناکامی ہے) پر بیرونی ہاتھ کو مورد ِ الزام ٹھہرانا اور تاثر دینا کہ دنیا بھر کی طاقتیں رات دن بیٹھ کر پاکستان کے خلا ف سازشیں کررہی ہیں۔ گویا عالمی طاقتوں کو اور کوئی کام نہیں ، سوائے اس کے کہ کسی طور پاکستان کو ناکام ریاست بنادیں۔ دوسری یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے افغانستان میں جو آگ لگائی ہے، اس کی تمازت ہمیں بھی پہنچی ہے۔ تیسری یہ کہ ہماری روایات اور کلچر کو سخت نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ بہت جلدیہ ریاست اُس سے بہت مختلف روپ دھارتی جارہے جو ا س کے بانیوں کے
پیش ِ نظر تھی، یعنی ایک لبرل اور ترقی پسند ریاست۔ ستم یہ ہے کہ اس ریاست میں ناکامی پر غریب عوام کو ہی الزام برداشت کرنا پڑتا ہے کہ وہ کرپٹ اور غیر تعلیم یافتہ ہیں اور اُنہیں جمہوری شعور نہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں غربت کی وجہ سے انتہا پسندی ہے ، لیکن بات بھی درست نہیں ، کیونکہ غربت کبھی بھی مذہبی انتہا پسندی کا روپ نہیں دھارتی۔ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستان سے بھی غریب ہیں لیکن وہاں سکولوں اور عبادت گاہوں پر اس طرح حملے نہیںہوتے جو ہم اپنے ہاتھ دیکھتے ہیں۔ یہ انتہاپسندی ہمارے مسخ شدہ نظریات کا شاخسانہ ہے، اور بدقسمتی سے ایسے نظریات کا حامل طبقہ سیاسی قدکاٹھ حاصل کرچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی ایسے گروہوں کے ساتھ وابستگی میں ہی غنیمت جانتی ہیں۔ چنانچہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن جاری ہے لیکن ان کا بیانیہ تبدیل کرنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیںآئی۔
سیاسی ایشو، قومی اصلاحی عمل اور تعمیر و ترقی (اس کا مطلب صرف سڑکوں کی توڑ پھوڑ نہیں)کے عمل کو سیاسی بیانیہ اور جمہوری فعالیت کے سانچے میں ڈھالنا ہی مسائل کا اصل حل ہے۔ اس کا کوئی اور حل ممکن نہیں، اور خدشہ ہے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ اب انہیں انصاف، سماجی مساوات اور معاشی خوشحالی میں شریک کرنا ہوگا۔ اب اگر ارباب ِ اختیار نے اپنی اصلاح نہ کی تو پھر بہت نقصان ہوجائے گا۔ عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے، اور اس کا متبادل سوچ کر بھی کلیجہ منہ کوآتا ہے۔