وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے کیا بات کر دی کہ سعودی جیلوں میں دو ہزار سے زائد پاکستانی مزدور قید ہیں۔ غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مزدور نہایت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کو پسماندہ علاقوں میں چھوڑ کر سمندر پار محنت مزدوری کر کے اُن کی کفالت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے کچھ ترس، کچھ نرمی، کچھ سہولتوں کی درخواست۔ کپتان کے دلگداز لہجے میں ایک جذبہ تھا، دکھ اور احساس کے جذبات تھے، جنہیں اُنہوں نے تمام مہمانوں کی موجودگی میں نہایت خلوص سے ولی عہد عزت مآب محمد بن سلمان کے سامنے رکھا۔ حکمران ایسے غریب اور مفلس لوگوںکے نام پر سیاست تو وطنِ عزیز میں کرتے رہے ہیں، اور کرتے رہیں گے، مگر مزدور کے حق میں دلیل، آواز اور جذبات سے مغلوب سوچ کا اظہار ہم نے اس طرح کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ اظہار بے حسی کی فضا میں بادِ نسیم کا تازہ جھونکا ہے۔ یہ قابلِ تعریف ہے اور قابلِ تقلید بھی۔
کپتان کے مخالفین جو بھی کہیں، میرے نزدیک یہ کوئی سیاسی چال نہیں بلکہ حق بات ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تپتے صحرائوں اور دھوپ سے جلتی دھرتی پر محنت کرنے والے غریب مزدور اپنے تن کی محنت ارزاں داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ اپنی حکومت اور ریاست کی طرف سے اپنے جائز مطالبات اور حقوق کی حفاظت کے حق دار ہیں۔ یہ محنت کش اُن ریاستوںکی جانب سے انصاف کے طلب گار ہیں جن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اُنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین سرمایہ، جوانی بصد خوشی پیش کی۔ اس دوران اُن مزدوروں نے گھر، خاندان اور ملک سے دوری، اور نامساعد حالات میں محنت کشی کے علاوہ بھی بہت سی صعوبتیں سہیں۔ ہماری حکومتوں نے ماضی میں وہ سہارا، تحفظ اور حمایت فراہم نہیں کی جس کے وہ حق دار تھے۔ یہ لوگ ہماری معیشت کے مرکزی کردار ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے سمندر پار محنت کشوں کے بھیجے گئے زرِ مبادلہ کی ترسیلات ہماری تمام برآمدات سے بڑھ کر ہیں۔ کڑے وقت میں ان محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی نے ہماری ادائیگیوں کے توازن کو سہارا فراہم کیا۔ جہاں ہم سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو برآمدات میں اضافے کی ترغیب، اور مراعات دیتے ہیں، وہاں ہم اس کے مقابلے میں سمندر پار پاکستانیوںکے لیے کچھ نہیں کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے حقیقی محسنوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ اُنہیں اس ناانصافی کا دیارِ غیر میں بھی سامنا ہے اور ملک کے اندر بھی۔
بیرونی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے چند گزارشات وزیرِ اعظم اور اُن کی کابینہ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ تسلیم کہ اس وقت تارکین وطن کے لیے ایک علیحدہ وزارت ہے، اور اس کا قلم دان وزیرِ اعظم کے ایک قریب ساتھی کے پاس ہے‘ لیکن ان وزارتوں کا کام صرف دوست ممالک میں کام کرنے والے مزدروں کی ترسیلات اور زر مبادلہ گننا نہیں بلکہ ان محنت کشوں کے قانونی حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہے۔ ہم جیسے ممالک، جہاں افرادی قوت کی بہتات ہے، نے مزدوروں کو دھکا دے کر سرحدیں عبور کرائی ہیں۔ اس کے بعد اُن کے ساتھ وہاں کیا بنتی ہے، ہم اس سے غافل رہے ہیں۔ ہمارے مقتدر طبقات نے ان کے بھیجے گئے زرِ مبادلہ سے خوب عیش کی ہے، لیکن اُنہیں درپیش مشکلات کی کسی کو خبر نہیں۔ خلیجی ریاستوںمیں کفیل کے بغیر کام کرنے کا ویزہ نہیں ملتا۔ ایک معاہدہ طے پاتا ہے، اس پر وزارتِ تارکینِ وطن ٹھپہ بھی لگاتی ہے، لیکن اُس استحصال کے خلاف کچھ نہیں کیا جاتا جو کفیل کے ہاتھوں محنت کشوں کا ہوتا ہے۔ دیارِ غیر میں جا کر ملازمت کرنے والے افراد کفیل کی مرضی کے بغیر نوکری تبدیل نہیں کر سکتے، اور اپنی آمدنی کا ایک حصہ اُنہیں دینا پڑتا ہے۔
آج عمران خان صاحب نے جیلوں میں بند جن دو ہزار سے زائد قیدیوں کی بات کی، ممکن ہے کہ اُن میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہو جنہوں نے اپنے کفیل کی مرضی کی خلاف کسی اور جگہ ملازمت تلاش کی، اور پھر کفیل نے اُنہیں مفرور قرار دے کر قید کرا دیا۔ یہ ہمارے سفارت خانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو درکار مدد فراہم کریں‘ لیکن ایسا کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تعینات ہونے کے بعد وہ ریاستی امور اور قومی مفادات کے تحفظ کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ سفارتی خود آرائی اُنہیں عام افراد کے ساتھ ملنے سے روکتی ہے۔ خرچے شاہانہ اور مزاج بادشاہانہ، وہ نوآبادیاتی دور کی ذہنیت، وہی طرزِ حکمرانی۔
آج کی تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں اس مزاج کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اور بیرونی ممالک میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جس سے معاشرے اور ریاست اپنے درمیان حائل صدیوں کے فاصلے کم کرتے، اور ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔
ہم بہت سن چکے کہ ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔ لیکن ریاستوں اور قوموں کی تعمیر خلا میں نہیں، معاشرے میں ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ، مزاج اور عملاً کارکردگی نوآبادیاتی ریاست کی یاد دلاتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان، سرکاری افسران، صنعت کار اور دیگر اعلیٰ حلقے نہ صرف نوآبادیاتی مزاج پر فخر کرتے ہیں بلکہ اسے اپنا پیدائشی حق بھی سمجھتے ہیں۔ اس کی مزاج کی ایک جھلک آپ سرکاری نظام میں نچلے درجے میں کام کرنے والے ملازم میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سرکاری دفتر میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کلرک بھی اپنی جگہ پر بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ وہاں آپ کو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی حکومتی گنگا کا بہائو کس طرف ہے، اور اس کے کنارے کون کون بیٹھا، بلکہ براجمان ہے۔ اس روش، مزاج اور اس کے قبلے کو تبدیل کرنا ہی وہ تبدیلی ہے جس کا پرچار روزانہ ہوتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ابتدا نچلے طبقے سے ہو۔ کیوں نہ سب سے پہلے تارکینِ وطن کو درپیش مسائل سے آگاہی اور ان کے ممکنہ تدارک سے تبدیلی کا آغاز کیا جائے؟ اس وقت ہمیں بے نیازی نہیں، کارکردگی چاہیے۔
ظلم کی بات یہ ہے کہ ہم نے زر مبادلہ کے بارے میں اپنے دوست اور تیل پیدا کرنے والے امیر ملک کے ساتھ اپنے مزدوروں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے سے گریزکیا۔ شاید ہمارے اندر کا خوف یہ ہے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ ایسی صورت میں ہمارے اقاموں، ہماری خفیہ جائیدادوں، جو لوٹی ہوئی دولت سے بنائی گئی تھیں، کا کیا بنے گا؟ ایسی مصلحت پسندی، اور اس کی وجہ بننے والے لوٹ مار کے مال کے بارے میں کیا کہا جائے؟ جب کسی ترقی یافتہ قوم کا شہری بیرون ملک کسی کردہ و ناکردہ جرم کا ذمہ دار قرار پاتا ہے تو اُس کا ملک اُسے تمام طرح کا قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ریاستیں دو طرفہ تعلقات میں اپنے شہریوں پر بات کرتی ہیں۔ اُن کے مسائل کو اہمیت دیتی ہیں۔ اگر جرم ثابت ہو جائے تو بھی ریاست اُسے وہاں سے نکال کر لے جاتی ہے۔ وہ ریاست یقینا ماں جیسی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں سمندر پار کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کے مسائل صرف کام کرنے کی جگہ پر ہی نہیں، ملک کے اندر بھی ہیں۔ وہ لوگ اپنے بچوں اور خاندانوں کی کفالت کے لیے دریارِ غیر میں محنت کے ستم جھیلتے ہیں، لیکن جب وہ واپس آتے ہیں تو یہاں سماجی مسائل اور ناہمواریاں اُن کا استقبال کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ واپس آ کر اپنے خواب پورے نہیں کر سکتے۔ یہاں قدم قدم پر نوسرباز اور ڈبل شاہ اُن کے سامنے گھات لگائے ہوتے ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم! اب جو آپ نے آواز اٹھائی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ سعودی جیلوں سے دو ہزار پاکستانیوں کی فوری رہائی کی خبر خوش آئند ہے، لیکن یہ پوری کہانی نہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے خار زار کہیں دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ مزدوروں کے خاندانوں کو تعلیم فراہم کی جائے تاکہ وہ روایتی مزدوری کرنے کی بجائے جدید شعبوں میں کام کر کے روزی کما سکیں۔ اُن کی رقوم اور جائیدادوں کو نوسر بازوں اور لٹیروں سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ انصاف گھر سے شروع ہو۔