پاکستان بحرانوں کے گرداب سے نکل رہا ہے ۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد قوم اور حکومت پُر اعتماد نظر آتے ہیں۔ بھارتی حملے کے بعد کمزوری کا احساس، اور اس کے نتیجے میں طاری ہونے والی مایوسی فطری تھی۔ ہم گزشتہ چالیس برسوں سے افغانستان اور اس کے عوام کو ''آزاد‘‘ کرانے کا ٹھیکہ لیے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ سے ہم اندرونی انتشار اور بیرونی دبائو کا شکار رہے ہیں۔ گزشہ چند دہائیوں میں دیگر ہم پلہ ممالک اقتصادی ترقی میں یک سو رہے، جبکہ ہم نے یہ قیمتی سال جنگوں میں ضائع کر دیے۔ افغانستان کی جنگوں میں دخل دینے کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم اس جنگ کو اپنے گھر تک بھی لے آئے۔
پاکستانی مبصرین اور سیاست دانوں کی اکثریت دوباتوں پر توجہ دے رہی ہے تاکہ ہم ماضی کی طرح اُن غلطیوں کا ارتکاب نہ کریں جن سے جان چھڑانا آج مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پہلی بات ،بڑی طاقتوں، خصوصاً امریکہ نے ہمیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ دونوں مرتبہ افغانستان میں لڑی جانے والی طویل جنگوں میں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ہماری اُس وقت کی قیادت نے یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کیا تھا۔ دونوں مواقع پر ملک میں آمریت تھی، آئین پامال ہو چکا تھا، اور عوامی نمائندے یا تو جیلوں میں تھے، یا بچنے کیلئے بھاگے پھر رہے تھے۔
سیاسی منظر نامے پر مصلحت پسندوں کی محفل سجی تھی، مفاد پرست گنگا کنارے بیٹھے تھے اور قومی مفاد کا ترازو اُن کی منشا کے مطابق جھکتا تھا۔ یہ بھی غلط نہیں کہ پالیسی سازی موزوں حالات کے تناظر میں طے پاتی ہے‘ لیکن حالات کی نزاکت، سنجیدگی، موقع شناسی، فائدے اور نقصان کے اندازے اور معروضی حالات کی جانچ صرف تاریخ کے سبق سے فیض یاب قیادت ہی کر سکتی ہے۔ لیکن دونوں مواقع پر ایسی قیادت میسر نہ تھی۔ اُس وقت ذاتی جاہ طلبی پر قومی مفاد کی چھاپ لگا کر بازارِ عقل میں ارزاںکیا گیا، مفاد پرستی پر تزویراتی ملمع کاری کی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انہی ادوار میں ملک نے جوہری اور عسکری طاقت حاصل کی، لیکن انتہا پسندی کے عفریت بھی اُسی دور میں آزاد ہوئے۔ نظریاتی بگاڑ، فکری رجعت پسندی، فرقہ واریت، عسکریت پسندی جیسے خار اُسی کھیتی کے ہمراہ اُگے۔ ان خطرناک رجحانات نے ملک کی اقتصادی ترقی پر کاری ضرب لگائی۔ صرف یہی نہیں، سیاست میں نفرت کا عنصر غالب آیا۔ دھڑے بندیوں نے آئین‘ قانون اور جمہوریت کو چیلنج کیا۔ سیاسی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے۔
آج ستر ہزار سے زائد شہریوں اور کم و بیش پندرہ ہزار سکیورٹی اہل کاروں کی قیمتی جانوں کی قربانی دینے کے بعد ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر ہیں۔ گزشتہ چار عشروں کا فکری انحطاط غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ سوچے بغیر آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں۔ افراد اندھیرے میں قدم اُٹھا سکتے ہیں، اقوام نہیں۔ منزل بھی ہمارے سامنے ہے، اور راستہ بھی۔ مسافر نے انتخاب کرنا ہے۔
یہ انتخاب ایک قیمت مانگتا ہے۔ اس کے لیے عسکریت پسندی اور جنگوں کے بیانیے کو ترک کرنا ہو گا۔ ملکی دفاع اور جنگجوئی کے درمیان فیصلہ کن لکیر کھینچنا ہو گی۔ اگلی منزل کا سراغ صرف اُن مسافروں کو ملتا ہے جو یہ تسلیم کر لیں کہ وہ غلط راستے پر تھے۔ اُن کے قدم اٹھے ضرور مگر غلط منزل کی طرف۔ غلطی کا احساس ہونے کے بعد ہی متبادل راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ صرف اس بات پر کڑھنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں بڑی طاقتوں نے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ان سے سیکھ کر آگے بڑھنے میں دانائی ہے۔ آج ہمیں ایک نئے عزم کے ساتھ تازہ سفر کا آغاز کرنا ہے۔ عہد کرنا ہے کہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کریں۔
دوسری بات کا ذکر وزیرِ اعظم عمران خان کئی سالوں سے کر رہے ہیں کہ اب ہم ماضی کے برعکس کسی ملک کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ اسی تناظر میں کپتان دہشت گردی کی جنگ، جس میں ہمیں ایک سو بلین ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا، کو پاکستان کی جنگ قرار نہیں دیتے۔ یہاں ہمارے مبصرین، سیاسی جماعتیں اور عسکری ادارے ایک صفحے پر نہیں رہے۔ یہ درست ہے کہ اگر ہم دہشت گردی کی جنگ کے اسباب تلاش کریں تو اس کا کھوج افغان جنگ میں ملتا ہے۔ لیکن اس جنگ کا انجام ایک دعوت فکر دیتا ہے۔ امریکہ نے سترہ برس تک ہر قسم کے مہلک ہتھیار استعمال کر کے دیکھ لیے، لیکن آخر کار عقل اور دلیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔ یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل اور خونیں جنگ تھی، اور ہم اس کے اتحادی تھے۔ ہمارے لیے دو اسباق ہیں۔ ایک تو امریکہ یہ جنگ نہ جیت سکا، اور دوسرا، ہم تمام تر قربانیوں کے باوجود امریکی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ گویا ، جو جنگیں سیاسی اور جذباتی تنائو کے پسِ منظر میں شروع ہوں، اور مقاصد واضح نہ ہوں، ان کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔
عمران خان صاحب نے اپنی تقریر میںکہا کہ جنگ شروع کرنا آسان ، لیکن وہ کیسے اور کب ختم ہو گی، ان عوامل پر کسی کی گرفت نہیں ہوتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی یہی کیفیت غالب رہی ۔ اس جنگ میں ہماری عسکری قیادت نے فقیدالمثال عزم کا ثبوت دیا۔ کوئی بھی اسے سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جوانوں نے قربانیاں دیں۔ اُنہیں سلام۔ لیکن ایسی جنگوں کو حتمی طور پر جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم یہ ضرور کہتے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی۔ لیکن اصل کام ابھی باقی ہے۔ در حقیقت اس کا ابھی آغاز ہوا ہے۔
ہمیں ایسے داخلی اور بیرونی حالات سے بچنا ہے جن کی وجہ سے دہشت گردی کو ہوا ملے۔ آج اپنی قربانیوں کی وجہ سے ہم اس جنگ سے نکل رہے ہیں۔ دنیا ہماری کامیابی کی معترف ہے۔ ہم سرخ رو ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ اب ترقی، بحالی، فکری بلوغت اور قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ ہم ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہماری حربی تیاری، جنگی ساز و سامان، اور خود کفالت ہمارے دفاع اور قومی وقار کے ضامن ہیں۔ طاقتور دفاع‘ جنگ اور جارحیت سے محفوظ رکھتا ہے۔
آج کی سیاسی اور عسکری قیادت ان معروضات سے آگاہ ہے۔ ماضی کا سبق ہمارے پیشِ نظر، حالات کا رخ سامنے، نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں۔ حالیہ بحران نے قوم کو اعتماد بھی بخشا ہے اور ایک راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ سیاسی حلقوں اور عسکری اداروں کے درمیان تفریق، جو ہماری قومی پہچان بن چکی تھی، حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی مختصر مگر جامع تقریر میں امن کا پیغام تھا، لیکن دوسری طرف بھارتی قیادت جذباتی ہیجان کا شکار دکھائی دی۔ وہ پاکستان کے خلاف عسکری طاقت کا استعمال کر کے اپنی برتری ثابت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھی، لیکن اس کی تعبیر الٹی نکلی۔ پاک فوج کی فیصلہ کن کارروائی اور کامیابی نے اس پر سکتہ طاری کر دیا۔ جہاں قوم سرخ رو ہوئی، وہاں سیاسی قیادت اور فوج‘ دونوں ایک صفحے پر دکھائی دیے۔ قومی بحران نے حکومت اور اپوزیشن کی رسہ کشی ختم کر دی۔
بحران مگر ابھی ٹلا نہیں۔ خاص طور پر وہ بحران جس کا تعلق اقتصادی شعبے سے ہے ۔ اس بحران کو ہنگامی وقت یا سیاسی مصلحت کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ آج عمران خان سے کہیں زیادہ امیدیں وابستہ کی جا چکی ہیں۔ وہ عزم اور جذبہ ضرور رکھتے ہیں، لیکن اب قومی ترجیحات کو طے کرنا اُن کا امتحان ہو گا۔
ایک اور اچھی خبر بیرونی تعلقات کے حوالے سے ہے ۔ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کو ہے۔ ہم نے اس طویل جنگ کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا ہمارے اخلاص کو دیکھ رہی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اب امریکہ اور مغرب کا رویہ تبدیل ہو گا۔ بھارت کے ساتھ تنائو کی صورت اس کا کچھ مظاہرہ دیکھنے کو بھی ملا۔
نیا پاکستان بنانے کے لیے درکار فضا سازگار ہوتی جا رہی ہے۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں۔ یہ خوابوںکو حقیقت کا روپ دینے کا وقت ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ اقتصادی ہے۔ طاقتور دفاع بھی اسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حکومت کو خیال رکھنا چاہیے کہ عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں، اور عوام جمہوری حکومتوں کو زیادہ وقت نہیں دیا کرتے۔ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ نیا پاکستان، جس کا وعدہ تھا، تعمیر ہو رہا ہے۔ اس یقین کا تعین حکومت کی کارکردگی کرے گی۔