دوباتیں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت تواتر سے کہتی چلی آرہی ہے۔ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا استحقاق ہے، اور پاکستان کی سرزمین کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ایک بار پھر ان کا اعادہ سننے میں آیا۔ یہ وہ اصول ہے جو ریاست کے مقتدر اور ذمہ دار ہونے کا تعین کرتا ہے۔ استحقاق سے کہیں زیادہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ طاقت کے استعمال پر اجارہ داری قائم کرے، اور اس کی سرحدوںکے اندر کوئی گروہ، تنظیم یا طاقت اس کے اقتدار کو چیلنج نہ کرسکے۔ ریاستی اقتدار کی دلیل یہ ہے کہ کوئی علاقہ، لوگ یا تنظیمیں اس کی آہنی اور قانونی گرفت سے باہر نہ ہوں۔ وہ اپنی پالیسیاں نافذ کرسکتی ہو۔ ایسا کرنے میں ناکام رہنے والی ریاست کمزور ہوتی ہے، اور وہ جلد یا بدیر داخلی اعتماد اور عالمی وقار کھو بیٹھتی ہیں۔
ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اپنی حالیہ تاریخ کے کچھ اوراق پلٹنے ہوں گے۔ ان میں دیدہ وروں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ آنے والے برسوں میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ نیا پاکستان تبھی بنے گا جب ریاست اور معاشرہ‘ دونوں ان داغوںکو مکمل طور پر دھو کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں گے۔ خوف سے بالاتر ہو کر، سیاسی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر، صرف کھرے سچ، دلیل اور معقولیت کو بنیاد بناتے ہوئے ایک مکالمہ شروع کرنا ہوگا۔ ہم دہشت گردی کا شکار کیوں ہوئے؟ کیوں نفرت اور انتہا پسندی کی حامل فرقہ وارانہ تحریکوں نے سر اٹھایا؟ کیوں ہماری سرزمین کا رشتہ کئی دہائیوں تک افغانستان میں ہونے والی طویل اور خوفناک جنگوں سے جڑ ا رہا؟ فکر کی ضرورت ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان دہشت گردی کیوں بنی رہی؟ تدبیر کرنی ہو گی کہ اب ہم اپنا روایتی تعارف کیونکر تبدیل کر سکتے ہیں؟ اب یہ محض آپشن نہیں، لازم ہوچکا ہے۔ ہم دنیا کے عالمی نظام کا حصہ ہیں۔ اس میں ترقی اور بقا کا تقاضا ہے کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ چلیں۔ کسی اور کے لیے نہیں، اپنے عوام کے لیے ان خارزاروںکو اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے، جنہوں نے کئی عشروں سے ہماری پائوں لہولہان کر رکھے ہیں۔
بات بہت سادہ ہے۔ دنیا بدل گئی ہے، ہم کیوں نہیں بدلے؟ تبدیلی کے سفر سے کیوں گریزاں ہیں؟ افغانستان میں جنیوا امن معاہدوں کے ذریعے جنگ آج سے تیس سال پہلے ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ دو عالمی طاقتوں، سوویت یونین اور امریکہ نے افغانستان میں مداخلت اور مزاحمت کی، لیکن پھر افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے نکل گئے۔ سرد جنگ سرد پڑ گئی۔ اس کے بعد افغانستان میں ہونے والی جنگ نظریاتی نہیں تھی۔ ایک خانہ جنگی تھی۔ اس سے ہر ممکن گریز کیا جانا بہتر تھا۔ ایسی جنگوں کو ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اپنی طرف بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری داخلی دھڑوں پر چھوڑ کر ایک طرف ہو جانا ہی دانائی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے افغانستان کو پرامن، متحد اور دوست رکھنا اپنی قومی ذمہ داری بنا لیا۔ اس نے ہماری تباہی کا سامان کر دیا۔ ہم اس بات سے غافل ہو گئے کہ نام نہاد جہاد کی آڑ میں جن طاقتوں نے افغانستان میں مداخلت کی، وہ ایسے محاذ پاکستان میں بھی کھول سکتی ہیں۔ تاریخ اور معاشرتی علوم سے غفلت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے مقتدر حکمرانو ں نے کوتاہ بینی کا مظاہرہ کیا۔
تسلیم کہ پاکستان میں بگاڑ افغانستان کی صورتِ حال کا نتیجہ ہے، لیکن ہمارے ہاں ہونے والی لوٹ مار، توڑ پھوڑ، بد انتظامی، نااہل اور بد عنوان قیادت اور مسلسل سیاسی کشیدگی اور حکومت گرائو تحریکیں بھی مجموعی طور پر ریاست اور اس کے اداروں کو کمزور کرتی رہی ہیں۔ ہمیں ایک جوہری طاقت ہونے کا فخر ضرور ہے، لیکن ہم ایک کمزور ریاست ہیں۔ غیر ریاستی عناصر ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے گئے۔ دو سال پہلے ایک نئی مذہبی جماعت نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک وفاقی حکومت کو مفلوج کیے رکھا۔ جب سابق حکومت نے پولیس کارروائی کی تو اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔
سوات میں، سابق قبائلی علاقوں اور حتیٰ کہ ہمارے معاشی اور تجارتی مرکز، کراچی تک کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا تھا۔ ریاست کو اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی کرنا پڑی۔ اس کے بعد حالات بدلنے لگے۔ لیکن کامیابی کی طرف بڑھتے ہوئے ہمیں ان معروضات کو ضرور ذہن میں رکھنا ہے‘ جن کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچے تھے۔ ہم نے غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ آئندہ ایسی غلطیاں نہ کرنا دانائی ہو گی۔
آج ہمارا بیانیہ صحیح سمت میں ہے کہ کوئی دہشت گرد اور غیر ریاستی عنصر ہماری سرزمین کو دوسری ریاستوں کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس بیانیے کا دوسرا حصہ اقتدارِ اعلیٰ کا تعین کرتا ہے۔ کسی لسانی، مسلکی اور مذہبی گروہ کو ریاست پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ نہایت اطمینان بخش بات ہے کہ ہماری عسکری اور موجودہ سیاسی‘ دونوں قیادتیں نئے بیانیے پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ اسے نافذ کرنے کے لیے پرعزم بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اب اس امر کا ادراک ہو چکا کہ صرف یہی بیانیہ اور اس کے نتیجے میں توانا ہونے والی ریاستی دھاک ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جا سکتی ہے۔
اس سے پہلے بھی کہا گیا تھا کہ ہم نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کریں گے، لیکن وہ بات ادھوری رہی یا سیاسی مصلحت سے کام لیا گیا۔ اس کے داخلی امن اور خارجہ تعلقات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ عسکریت پسند تنظیموں کو شہ ملی اور ریاست میں اتنا دم خم نہیں کہ اُن پر پابندیاں نافذ کر سکے۔ کمزور قانون، جاہ پرست سیاستدان اور کمزور ریاستی ادارے فیصلہ کن کارروائی نہیںکر سکتے۔
ضروری ہے کہ جن تنظیموں پر انتہا پسندی کا الزام ہے، اور وہ ہمارے قانون کی رو سے کالعدم ہیں، اُنہیں قانون کے دائرے میں رکھا جائے۔ جزوی طور پر نہیں، اور نہ ہی چند تنظیموں اور اُن کے رہنمائوں کے خلاف کارروائی کی جائے، بلکہ یہ کارروائی بے لاگ اور بلا امتیاز ہونی چاہیے۔ معاشرے میں یہ تاثر قائم ہونا ضروری ہے کہ ملکی قانون کے سامنے کسی کو استثنا حاصل نہیں۔ اس کے لیے ریاستی وسائل عزم اور دانائی کے ساتھ استعمال کرنا ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہا پسند کمزوری سے شہ پاتے ہیں۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ریاست اور اس کے ادارے یکسو اور پرعزم ہیں، تو مزاحمت کی جرأت نہیں کریںگے۔ ہم سے کہیں کمزور اور منتشر ریاستوں نے کہیں زیادہ متشدد اور سخت جان دشمنوں کو شکست دی ہے۔ ہمارے عسکری ادارے بہت صلاحیت رکھتے ہیں‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر، یہ بیانیے کی جنگ ہے۔ یہاں سیاسی قیادت اور معاشرے کے سوچ سمجھ رکھنے والے طبقات کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اس جنگ کی اصل وجوہات کو ختم کرے۔ پاکستان کے قیام کا اصل مقصد اسی عسکریت پسندی اور جنونیت کو ختم کرنا تھا۔
اس نئے بیانیے کو دنیا تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے داخلی حالات میں بہتری آئے گی۔ عسکریت پسندی کو موثر لگام ڈالی جائے گی۔ آج کے دور میں داخلی حالات کی پردہ پوشی ناممکن ہے۔ دنیا صرف باتیں نہیں سنتی، دیکھتی اور سمجھتی بھی ہے۔ اگر بیانات زمینی حقائق سے لگا نہ کھاتے ہوں تو بے اثر رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی اور حال کے حوالے سے غلطیاں تسلیم کرنا ہوں گی۔ اس سے پہلے ہم نے جو بھی اقدامات کیے تھے، عالمی طاقتیں، بلکہ ہماری دوست ریاستیں بھی اُن سے مطمئن نہ تھیں۔ ہمارے اور عالمی برادری کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔ ہمارے مثبت اقدامات کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھا گیا بلکہ ہمارے بارے میں دنیا بھارت کے بیانیے پر زیادہ یقین کرتی۔ انتہا یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم لڑ رہے ہیں، قربانیاں ہم دے رہے ہیں، لیکن دنیا ہمیں اسی کی ذمہ دار سمجھتی ہے۔ اگر یہی عالمی تنہائی ہے، تو کوئی ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حالیہ بحران، جنگی ماحول اور علاقائی کشیدگی نے ہمیں ایک موقع دیا ہے۔ ہم دنیا کے خدشات ختم کر سکتے ہیں۔ نیا بیانیہ ہمیں راستہ فراہم کر رہا ہے۔ دیگر ریاستیں جدت اور باہمی روابط کی وجہ سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ ہم دنیا سے کٹ کر ایسا نہیں کر سکتے۔ ان حقائق کو سامنے رکھنا ہو گا۔ دبائو نہیں، دلیل کو ماننا ضروری ہے۔