کئی حوالوں سے اور کئی جگہوں پر لوگوں سے ملاقات رہتی ہے ۔ اُن میں دوست بھی ہیں‘ خاندان کے افراد‘ رشتے داراور وہ بھی جن سے سرِراہ یا کسی تقریب میں کچھ لمحوں کی رفاقت میسر آتی ہے ۔ بات سیاست سے شروع ہوکرسیاست پر ہی ختم ہوتی ہے ۔ آج نہیں کئی عشروںسے سوچ‘ گفتگو اور تکلم سیاست کے نرغے میںہیں۔ سیاست پراتنی جانبداری‘ اتنی شدت‘ اتنا جوش کہ محبت اور نفرت‘ دونوں کے پیمانے لبریز۔ معقولیت کی ذرا گنجائش نہیں ۔ منہ زورجذبات ‘ غصہ تھمنے کا نام نہیں لیتا‘ مخالف کی ستائش برداشت نہیں۔ بازار ِ سیاست کا اتار چڑھائونجی محفلوں کے ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ کئی بزرگ دوست بھی اختلاف کی تاب نہ لاتے ہوئے ناراض ہوجاتے ہیں۔ بول چال بند‘ برقی پیغام رسانی کا سلسلہ معطل‘ ملنے سے گریز‘ فون کال وصول کرنے سے گریزاں۔
معاشرے میں زیر ِ بحث موضوع کا تعلق معاشرے کی فکری اساس سے ہوتا ہے ۔ اس اساس کا تعین معیشت‘ سیاسی نظام اور مقتدر طبقا ت اور رہن سہن اور نظریات کرتے ہیں۔ پہلے مقتدر طبقات کے بارے میں بات کرلیتے ہیں ۔ ہر ملک میں مقتدر طبقات ہوتے ہیں‘لیکن ان کی طاقت‘ گرفت‘ اثر اور اُڑان کے ذرائع یکساں نہیں ہوتے ۔ موجودہ عالمی نظام ‘ جس کی روح اور جسم سرمایہ دارانہ نظام ہے ‘ میں دولت‘ سرمایہ اور ذرائع پیداوار پر اجارہ داری کے ساتھ ہی اقتدار کے زینے چڑھے جاتے ہیں۔ تیسری دنیا میں سماجی اقدار کی بنیاد قبائلی تہذیب ہے ۔ یہاں ذات پات‘ روایتی سماجی ڈھانچے طاقت اور کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ سیاسی کامیابی دولت کے انبار لگانے میں معاونت فراہم کرتی ہے ۔ قانون کمزور‘ ریاست کمزور اور انصاف کی خریدو فروخت۔ ہمیشہ بھاری جیب والے ہی سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔دولت سے سیاسی کامیابی ‘ اور سیاسی کامیابی سے دولت۔ سیاسی کمائی ‘ سیاسی میدان‘ کھلاڑیوں کے جمگھٹے اور جھنڈا برداروں کے لشکر۔ کمزور اور زنگ آلود جمہوریت میں طاقت کا راز عوام کے دل جیتنے میں نہیں‘ عوام کو ''متاثر ‘‘ کرنے میں ہے ۔ پاکستان میں سب سے کامیاب صنعت یہی ہے ؛ چنانچہ سرمایہ دار صنعت لگا کر کیوں رسک لیں گے ۔ وہ سیاست میں آنا اور بے اندازہ کمانا بہتر سمجھتے ہیں۔ یہاں ''ہارے ‘‘بھی تو بازی مات نہیں۔ نام ‘ شہرت‘ تعریف و توصیف‘ ملک وقوم کے لیے خدمات‘ انسان دوستی‘ جمہور پسندی... میڈیا کی عکس بندی کے کیا کہنے! یہ سرمایہ کاری زیادہ ثمر با ر نہ بھی ہو تو کم از کم مقامی سطح پر تو لیڈر بن سکتے ہیں۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ بات سنتی ہے ‘ اور اگر ماضی کی مقتدر جماعت سے تعلق ہے تو حال کی مقتدر تک رسائی پر کون سی پابندی ہے ۔ گویا سیاسی سرمایہ کاری میں نقصان کوئی نہیں۔ نفع کی کئی صورتیں ہیں ‘ ایک سے بڑھ کر ایک۔
ہمارے ہاں چار مقتدر طبقے ہیں۔ ان میں چند سو سیاسی خاندان ہیں جو اسمبلیوں میں منتخب ہوتے ہیں۔ ان کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رہتا ہے ۔ کچھ سیاسی خاندان اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ انہیں کسی سیاسی جماعت کے لیبل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ‘ سیاسی جماعتوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ خاندان غیر سیاسی حوالوں سے‘ جیسا کہ جاگیرداری‘ گدی نشینی یا قبائلی سربراہی کے ذریعے عوام میں دھاک رکھتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ابھرتے ہوئے صنعت کار گھرانے ہیں۔ اور اس کے ساتھ رئیل اسٹیٹ سے وابستہ چند سو افراد۔ گزشتہ کچھ عرصے سے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد کی تعداد اسمبلیوں میں حیران کن حد تک بڑھی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اُن کی دولت کا کھلم کھلا سہارا لیتی ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں‘ قارئین سمجھ گئے ہوں گے ۔ کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک انگریزی کالم میں بات کی تھی کہ کس طرح عوام کی خون پسینے کی کمائی ان مقتدر طبقات میں تقسیم ہوتی ہے ‘ اور وہ کس طرح اس دولت کے بل بوتے پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ مہنگی گاڑیاں‘ عالیشان مکانات‘ غیر ملکی سفر۔یقینا ضمیر کی موت انسانیت کی ہلاکت ہوتی ہے۔ دوسرے دو طبقات ‘ جن کے پاس دولت اور طاقت ہے ‘ وہ افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ ہیں
حتمی سچائی یہی ہے کہ اقتدار‘ طاقت اور اثر ہمیشہ انہی مقتدر طبقات کے پاس رہتا ہے ۔ حکومتوں کے رد وبدل کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اسے ان کی نہ کبھی محتاجی رہی ہے ‘ نہ رہے گی۔ حکمران جو بھی ہو‘ اسے اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیے ایک نہیں کئی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان میں سے ایک امیج سازی بھی ہے ۔ آج کل کچھ میڈیا ہائوسز ''رینٹ اے امیج ‘‘ کا کاروبار چلارہے ہیں۔ سرمایہ کاری ہو تو ہر چیز مل جاتی ہے ۔ ان معمولات کے دوسری طرف تاریخ کا سفر بھی جاری ہے ۔ تاریخ بے رحم بھی ہوتی ہے اور بے لحاظ بھی ۔ یہ سب پردے‘ سب چہرے اور کردار بے نقاب کردیتی ہے ۔ آنے والی نسلوں کے سامنے آئینہ رکھ دینے والی تاریخ سب سے بڑی منصف بھی ہوتی ہے ۔ کون ہے جو اس کی پرکھ سے بچ سکے ۔ یہ نہ چکاچوند کو مانتی ہے اور نہ ہی امیج سازی کو۔ اس کے ایوانوں میں دفاع کے لیے بھاری فیس پر کسی وکیل کی خدمات میسر نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ حقیقت کا تعلق وقت سے نہیں ہوتا‘ لیکن امیج سازی کی بنیاد تاثر پر‘ اور تاثر کی وقت پر ہوتی ہے ۔ جب وقت پر پھیلا کر گز رجاتا ہے‘ تو یہ ساری بنیادیں ڈھے جاتی ہیں۔ تو پھر آج اچھے لوگوں نے سیاست کے نام پر پانی پت کیوں سجایا ہوا ہے ؟ دوستیاں‘ رفاقتیں‘ میل جول ‘ سب اس کی نذر کیوں ہورہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ تمام لوگ پاکستان کو خوش ‘خوشحال اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم یوں تو بات بات میں ہندوستان کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہیں‘ لیکن یہاں میں سوچ رہا ہوں کہ ہزار خرابیوں کے باوجود ہندوستان نے جمہوریت کا سفر بہت مستقل مزاجی سے طے کیا ہے ۔ ا س کی معیشت کئی عشروں تک سست رہی ‘ لیکن اب تیزرفتار اور فروغ پذیر ہوچکی ہے ۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرپائے ؟ ہم نے ہندوستان سے الگ ہو کر اپنا یہ گھر (پاکستان) آباد کیا تھا ‘ اس دعوے کے ساتھ کہ ہم یہاں بہتر زندگی بسر کریں گے ۔ لیکن اب یہ سوچ شدت سے راسخ ہوتی جارہی ہے کہ انڈیا کو چھوڑیں‘ پاکستان دیگر ہم پلہ ریاستوں سے بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ علیحدگی کے وقت بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے بہت زیادہ تھی‘ آج بہت کم ہے ۔ اس کی معیشت‘ معاشی ترقی کی شرح اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر ہم سے بہت بہتر ہیں۔ کیوں؟ ا س لیے کہ انہوں نے تعلیم‘ صحت اور سماجی ترقی پر سرمایہ کاری کی ۔ ادھر ہم ہیں کہ ہم نے اپنے اردگر د سیاست کا دلدلی ویرانہ بنا رکھا ہے ۔ شور‘ اضطراب‘ بے چینی اور افراتفری ہے ۔ مقتدر طبقات کے لیے یہ فضا بہت ساز گار ہے ۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ دولت کے انبار لگاتے ہیں۔ میں یہ بات محض بر سبیل تذکرہ نہیں کررہا۔ یقین کریں یہ بے چینی اور سیاسی کشیدگی‘ اور ماضی کا تنائو بھی ‘ انہی مقتدر حلقوں کا کھیل ہے ۔ اگر ملک ترقی کرے گاتو اس میں آئین اور قانون کی بالا دستی قائم ہوگی۔ پھر ان کی دولت سازی کی مہم ماند پڑجائے گی۔ وہ خود کو احتساب کی چکی میں کیوں پھنسوانا چاہیں گے ؟ ہر بدعنوان شخص کو معاشرہ اور لوگ بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں‘ لیکن یہ اُن کے اندر کی کمزوریوں اور نقائص کا عکس ہے ۔ خود کو صاف ستھرا اور مخلص ثابت کرنے کے لیے وہ تمام خرابیاں معاشرے اور عام شہری میں تلاش کریں گے ۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر معاشرہ فکری اور معاشی طورپر ترقی کرگیا اور قانون کی طاقت بحال ہوگئی تو اُنہیں نکیل ڈال دی جائے گی۔ لوٹ مار کا بازار ختم ہوجائے گا۔
دو خواب باہم متصادم ہیں۔ ان میں ٹکرائو کی وجہ سے بے چینی اور اضطراب ہے۔ ایک طرف مقتدر طبقات کا مغل شہزادوں کا سا طرز ِ زندگی‘ لوٹ مار‘ زراندوزی‘ سیاسی خریدوفروخت‘ تو دوسری طرف عام شخص کا خواب ہے ۔ وہ وطن ِعزیزکو خوشحال‘ پرسکون اور مستحکم دیکھنا چاہتا ہے ۔ اُس کا جی چاہتا ہے کہ اُس کا وطن بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح باعزت ہو‘ ا س کے حکمرانوں کو کشکول لے کر ملکوں ملکوں نہ گھومنا پڑے۔عیش نہیں‘ عزت تو ہو۔ ایسا کب ہوگا‘ یہ بتانا تو مشکل ہے ‘ لیکن جب بھی ہوگا‘ فکری تبدیلی اس کی پہلی اینٹ ہوگی۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے تکلم کو تبدیل کرنا ہے ۔ ہمہ وقت سیاست گردی سے بچنا ہوگا۔ ہمیں معیشت‘ صحافت‘ تعلیم‘ صحت‘ کھیل کود ‘ دفاع اور دیگر امور کو سیاسی بحث کے گرداب سے نکالنا ہے ۔مثبت انداز فکر‘ تعمیر ی سوچ‘ تجزیہ کاری اور معقولیت کی ضرورت ہے ۔ معلومات کے اس سیلاب میں سب سے ضروری صلاحیت پرکھ کرنا ہے ۔لیکن یہ تب ہوگا جب ہم سیاسی اکھاڑے سے باہر آئیں گے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی بجائے اپنے ملک اور دنیا کے مروضی حالات کو دیکھنا اور پرکھنا سیکھیں گے ۔