عمریں بیت گئیں‘ چھوٹے بڑے شہروں کے ہر چوراہے پر یہ دلفگار منظر دیکھتے ہوئے۔ بے حس معاشرہ، خاموش شہری اور مایوسی کا شکار دانشور کچھ بولنے، لکھنے اور صدائے احتجاج بلند کرنے سے گریزاں۔ سب تھک چکے ہیں۔ یقین ہو چلا ہے کہ کچھ تبدیل ہوا ہے نہ ہو گا۔ پاکستان اور اس کا سماج۔ یونہی بھدا، بے ترتیب، ناہموار۔ حکمران طبقات اور اُن کے خاندانی اور سیاسی وارث اُسی بے حسی، ہوسِ زر اور اقتدار قائم رکھنے کی کوشش میں وقت اور وسائل برباد کرتے رہیںگے۔ حقیقی معنوں میں ہماری زندگی، ہمارے خواب، ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کی تباہی کے ذمہ دار۔ سرپھروں کی بات اور ہے کہ وہ شکست خوردگی میں آسودگی اور پناہ کی تلاش نہیں کرتے۔ جیسے بہار میں شجر پر پھولوں اور پھلوں کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، ویرانوں میں برسات کے خواب لیے جیتے ہیں۔
یہ تمہید اُن کم سن بچوں کے نام، جو چوراہوں اور دیگر عوامی مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔ ہر پاکستانی اُنہیں دیکھتا، اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما، بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائد، نوکر شاہی کے عظیم ستون ان کم سن بھکاریوں پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالتے ہیں، اور معاشرے کو سنوارنے، جمہوریت، معیشت، قانون کی حکمرانی اور انصاف فراہم کرنے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ بعض نے تین تین باریاں لیں، لیکن نہ غربت اور نہ ہی بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں کمی آئی۔ کیا کریں؟ اب تو ملک بھی بھکاری ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔ قرضے، امداد کی اپیل، قرضوں کی معافی، مزید قرضے، وہی کہانی کہ کس مہارت سے پاکستان کا سرمایہ دور دراز کی مالیاتی پناہ گاہوں میں اپنے خاندان کے لیے محفوظ کیا جائے۔ ایک طرف غربت اور بھکاریوں کی شہروں کی طرف آمد، اور دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں کی لوٹ مار، بدعنوانی سے اکٹھی کی ہوئی دولت کے انبار۔ ناکام ملکوں اور ریاستوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بھکاریوں اور بدعنوان حکمرانوں کے درمیان ایک فطری تعلق دکھائی دیتا ہے۔
بھکاری تو ہر عمر، جنس اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر بچے سکول جانے کی بجائے سڑکوں پر بھیک مانگتے دکھائی دیں تو ساری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ لیکن فکر کوئی نہیں کر رہا۔ یہی دکھ کی بات ہے۔ غریب ہونا اور بات ہے، مجموعی بے حسی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہم میں سے کچھ زیادہ سے زیادہ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے کچھ سکے یا نوٹ دے کر سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے خیرات دے کر اپنا مذہبی فریضہ سرانجام دے دیا۔ میں اس خیراتی عمل کو سماجی علوم کے حوالے سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ نوٹ جو آپ نے کسی نامعلوم شخص کے ہاتھ میں تھمایا ہے، وہ اس کی جیب میں نہیں جائے گا۔ ان بھکاریوں کی پشت پر کوئی بہت بڑا مافیا ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر ان کی جگہ، وقت اور دورانیے کا فیصلہ کر رہا ہو گا۔ وہ سارا مال کسی باس کے پاس شام کو جمع ہو گا۔ یہ قیاس آرائی نہیں، ناتمام مشاہدہ ہے۔ کناروں پر ٹھہر کر دیکھا کہ بچوں کو گاڑیوں میں لا کر اشاروں والے چوراہوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ''فری لانس‘‘ بھکاری کسی چوک پر بھٹک کر آ جائے تو اُسے زدوکوب کرکے بھگا دیا جاتا ہے۔ بھکاری مافیا شہر کے مختلف علاقوں پر اس طرح راج کرتا ہے جس طرح دنیا کے بعض شہروں میں ڈرگ مافیا۔ یہاں منڈی کا نہیں، ڈنڈے کا اصول چلتا ہے۔
کسی روز، کسی بھی شہر میں ذرا رک کر دیکھیں تو بھکاریوں کے لشکر کھلم کھلا باوردی ٹریفک پولیس کے متوازی اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں، ہر کوئی دیکھتا اور جانتا ہے کہ وہ پولیس والا اُنہیں وہاں سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس سماجی لعنت کو کون روکے؟ بچوں کو اس جہنم سے کون نکالے؟ یہ بچے بھی فطری صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ ان میں سے بہت سے ڈاکٹر، وکیل، دانشور اور تجارت پیشہ افراد بن سکتے ہیں۔ فرق صرف تعلیم، ماحول اور خاندانی پسِ منظر کا ہے۔
بھکاری ہماری قومی پستی، شخصی بے حسی اور بے سمت طرزِ حکمرانی کی علامات میں سے ایک ہیں۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف سے واقعی ہم نے بہت سی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ ابھی بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت اور وسائل کی کمی اور مسائل کے انبار ایک حقیقت ہیں۔ مزید مہلت دی جائے۔ لیکن یہ معاملہ ایسا ہے جس کے لیے کسی بیرونی امداد، سرمائے یا قرضے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے فقط توجہ‘ انہماک، محنت اور سب سے بڑھ کر دل میں انسانیت کے درد کی ضرورت ہے۔ بھیک مانگنا اور جس انداز میں بھیک دی جاتی ہے، یہ انسانیت کی بدترین تذلیل ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بھیک مانگنے کے کاروبار کو سختی سے، مربوط قانون اور پالیسی بنا کر روکے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ کتنے وزیر، مشیر اور ہزاروں کی تعداد میں حکومتی کارندے ہیں۔ کیوں کوئی افسر یا شعبہ اس کی ذمہ داری نہیں لیتا؟
لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنا جانتا ہے۔ نسلیں گزر گئیں، گداگر بچے بڑے ہو گئے، مزید گداگر پیدا کرکے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیے گئے۔ اس دوران ملک کی آبادی بے ہنگم انداز میں بڑھتی گئی۔ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ گداگری کا تعلق صرف غربت سے ہے۔ مگر یہ ایک وجہ ضرور ہے۔ میں نے یہ افسوسناک منظر بھی دیکھا ہے۔ میرے بچپن میں روایتی کشتی کا ایک مشہور پہلوان تھا۔ میں نے اُسے لکڑی ہاتھ میں لیے ایک شہر کے بسوں کے اڈے پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ وہ شخص جس کی کشتی دیکھنے ہزاروں لوگ انتظار کررہے ہوتے تھے۔ میرا سر شرم سے جھک گیا۔ موسیقی، فنونِ لطیفہ اور دیگر فنکار گوشۂ گمنامی میں بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن معاشرے کو دیے تھے۔ ہماری قومی اور روایتی ثقافت کو جلا بخشی، اسے زندہ رکھا، لیکن جوانی گزرنے کے بعد اب معاشرہ اُنہیں زندہ نہیں رکھ پارہا ہے۔ دوسری طرف مورثی سیاسی طبقات ہیں، جن کی ہوسِ زر بے لگام ہے، اور کوئی خوبی نہیں، محض سرمائے کے زور پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ سوچا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان، محترم آصف سعید کھوسہ سے درخواست کروں۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی کو ذمہ داری یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بھیک مانگتے ہوئے بچے ہم سب کے بچے ہیں۔ یہ چمکدار گاڑیوں کے درمیان غربت اور غلاظت میں لپٹے، زرد چہروں والے بچے ہمارے ہیں۔ انہیں بھیک نہیں، تعلیم اور عزتِ نفس چاہیے۔ اپنی ذات اور انسانیت سے آگاہی چاہیے۔
لیکن افسوس، ہمارے کندھوں پر اپنی تاریخ کا بوجھ بھی لدا ہوا ہے۔ امیدیں بوجھل ہیں۔ تیزآندھی میں چراغ کی طرح ٹمٹما کر بجھ جاتی ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ میاں نواز شریف کی تیسری ناکام حکومت کے ابتدائی ایام تھے۔ چوہدری نثار علی خان جیسے بااثر اور قابل شخص وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ایک کانفرنس میں اعلان کیا کہ اب ہمیں اسلام آباد کے چوراہوں پر بھکاری بچے کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ دل کو تسلی ہوئی۔ حوصلہ بڑھا کہ کوئی تو ہے جو سو چ رہا ہے۔ اب بھکاری مافیا اپنے انجام کو پہنچے گا۔ لیکن جلد ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ چوہدری صاحب اقتدار کی بھول بھلیوں میں سمت اور راستہ کھو بیٹھے۔ کیا ہم موجودہ وزیرِ داخلہ سے کوئی امید کر سکتے ہیں؟ کامیاب ریاستیں راتوں رات چاند پر نہیں جاتیں، یہ بظاہر چھوٹے، لیکن سنگین سماجی مسائل حل کرتی ہیں۔ ان کے لیے بیرونی امداد، تقاریر اور انقلابی نعروں کی ضرورت نہیں۔ دل میں انسانیت کا درد ہونا شرط ہے۔