سیاسی تماشا دیکھنے والوں کے لیے خوش خبری‘ سیاسی منڈی کاروبار کے لیے کھل چکی ۔ عجیب بات ہے کہ اس جانے پہچانے ‘ سود مند کاروبارکا اعلان حزب ِ اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں کیا گیا ۔ کچھ ماہ سے ان جماعتوں کے اکابرین کبھی کھلے‘ اور کبھی دبے لفظوں میں چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کو ان کے منصب سے ہٹانے کی باتیں کررہے تھے ۔ گزشتہ دنوں ہونے والی اے پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیئرمین سینیٹ کو قانونی طریقے سے رخصت کریں گے۔ خدا جانے کوئی غیر قانونی طریقہ بھی ہوتا ہے چیئرمین کو ہٹانے کا ؟ مارشل لا وہ لگا نہیںسکتے نہ ہی آئین کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرسکتے ہیں توظاہر ہے کہ آئینی اور قانونی طریقے سے ہی ہٹانا پڑے گا۔ پارلیمانی نظام میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے ۔اگر اکثریت کے ووٹ خلاف ہوجائیں تو چیئر مین اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ مرکز اور صوبے میں حکومت رخصت کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے ۔ جب اکثریت نہیں رہتی تو حکومت اقتدار کے حق سے محروم ہوجاتی ہے ۔
مرکزی حکومت کو گرانے کے لیے بھی محترم آصف علی زرداری کئی بار اعلان کرچکے ہیں۔ زرداری صاحب کے چاہنے والوں کو یقین ہے کہ وہ جو کہتے ہیں‘کر دکھاتے ہیں‘ اب دیکھنا ہو گا کہ وہ عملی طور پر کچھ کرپائیں گے یا نہیں؟ اس مرتبہ تو انہیں اپنی روایتی حریف مسلم لیگ نون کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے پر نظر ڈالیں تو سب سے بڑا مشترکہ مقصد حکومت کو ناکام ثابت کرنا ہے ۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کیونکہ اگر حکومت کی جاری کردہ اصلاحات اور مشکل اقتصادی فیصلے کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو دو بڑے سیاسی خاندانوں کا سیاسی کاروبار اگر بند نہیں تو شدید مندی کا شکار تو ضرور ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ آخری حد تک جائیں گے ۔ ویسے ہمارا اب تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ آخری حد وہ نہیں ہوتی جو سیاسی جماعتیں بتاتی ہیں۔ پارلیمانی نظام کی اچھائیوں کے علاوہ ناپختہ جمہوریت میں کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں جمہوری روایات سے خالی ‘ اور ان کی قیادت چند مخصوص افراد کے ہاتھ ہے ۔ دونوں سیاسی جماعتوںکے اراکین ِ اسمبلی اپنی اپنی قیادت کی کرپشن کے دفاع میں مصروف ہیں۔ دفاع تو انہیں کرنا چاہیے جن پر الزام لگا ہے ۔ کہیں ایسا نہیں ہوتا‘ کم ازکم جمہوری ممالک میں ‘ کہ الزامات کا جواب سیاسی جماعت کے دیگر اراکین اپنے ذمے لے لیں‘ لیکن ہمارے ہاں کے خوشامدی اور جی حضوری کے کلچر میں سیاسی خاندان اپنے حق میں بولنے اور احتجاج کرنے والوں کو اپنے دور ِاقتدار میں خوب نوازتے ہیں۔ خطرہ دونوں سیاسی خاندانوں کے علاوہ چھوٹی جماعتوں کو بھی ہے کہ اگر ملک میں سیاسی طور پر سکون ہو تو عوام یہ خیال نہ کرلیں کہ حزب ِاختلاف ہار مان کر گھر بیٹھ چکی۔ سیاسی کاروبار چمکانے کے لیے میدان گرم رکھنا ضروری ہے ۔ اگر قائد یا قائدین جیل میں سزا کاٹ رہے ہوں ‘ یا اُن کے خلاف مقدمات کے فیصلے کا انتظار ہو تو باہر آزاد ہرکارے شور وغل میں کمی نہ آنے دیں۔ اگر دن پھر گئے تو اس مشقت کا معقول معاوضہ ملے گا۔
سیاسی کاروبار کی منڈی تو چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے دعوے سے شروع ہوچکی ہے ۔ حزب ِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے پاس عددی اکثریت موجودہے لیکن جناب صادق سنجرانی نے ایسا کون سا غیر آئینی‘ غیر قانونی کام کیا ہے جو حزب ِ اختلاف کی یہ جماعتیں اُن کے درپے ہیں؟ شنید ہے کہ آصف زرداری صاحب خود چیئرمین سینیٹ بنناچاہتے ہیں۔ کیا اس سے ان پر احتساب کے عمل کی گرفت نرم پڑ جائے گی؟ انہیں اس عہدے کی نسبت سے آئینی استثنیٰ مل جائے گا؟ موصوف نے صدر ِ پاکستان کا عہدہ بھی اسی نیت سے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ اس وقت بھی پارٹی پر ان کی گرفت‘ اور فیصلہ سازی‘ تقرریوں اور تبادلوں پر ان کا ہی اختیار تھا۔ کیا وہ ایسا کرپائیں گے ؟یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔ پہلے تو ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ سینیٹرز‘ خاص طور پر جن کا تعلق بلوچستان سے تھا‘ اپنی جماعتی قیادت کے خلاف بغاوت پر اتر آئے تھے ۔ اس بار وہ اپنے ضمیر کے علاوہ اپنے سیاسی مفادات کے مطابق فیصلہ کرسکتے ہیں۔ دوسرے‘ حکومت نے ہر صورت سنجرانی صاحب کی حمایت کا اعلان کردیا ہے ۔ دیکھنا ہے کہ فتح کس کی ہوتی ہے ۔ تاریخ کے پرانے اوراق پر نظر ڈالیں تو ایسی تحریکوں میں صرف اراکین ِاسمبلی اور سینیٹ کی خریدوفروخت کی راہ نکلتی ہے ۔یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب یہ طبقہ اپنی سرمایہ کاری پر معقول منافع کی امید رکھتاہے ۔ ناکامی کی صورت میں حزب ِ اختلاف کی سبکی بلکہ پسپائی بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے ایسی جگہ محاذ کھولنا ہے جہاں عددی لحاظ سے حکومت اور اس کے اتحادی کمزور ہوں۔ حکومت کے پاس وسائل زیادہ ہیں‘ اور اراکین کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی پریشانی ہے ۔
طرفہ تماشا دیکھیں‘ اب تحریک ِانصاف کی حکومت نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایسا ہی محاذ کھولا ہے جہاں وہ کمزور نظر آتے ہیں۔ اقتدار سے محرومی پر موروثی سیاست کرنے والی جماعتیں اراکین کی اطاعت اور وابستگی دیر تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتیں۔ ان کے پاس سیاسی بیان بازی کے سواکچھ نہیں۔ مستقبل کے خواب ضرور دکھاتے ہوں گے ‘ لیکن سیاسی کارکنوں اور اراکین ِاسمبلی میں یہ تاثر تقویت پاجائے کہ اب ان کے پاس مزید کوئی باری نہیں ‘ سیاسی موسم تبدیل ہوچکا‘ تو پھر وہ بھی اپنی راہیں بدل لیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نجی محفلوں میں اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے قائدین نے کرپشن کی‘ ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا‘ اور ان کے مفادات پاکستان میں نہیں‘ کہیں اور ہیں۔ انہیں ویسے بھی لیگ یا پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ ان کا اپنا سیاسی وزن‘ اپنا حلقہ ہے ‘ وہ جس جماعت میں بھی جائیں‘ منتخب ہوسکتے ہیں۔ اندر ونی حلقوںکو توعلم تھا کہ پس ِپردہ کیا ہورہاہے ‘ لیکن عوا م کے لیے یہ بہرحال ایک چونکا دینے والی خبر تھی کہ پیپلز پارٹی کے رکن ِ پنجاب اسمبلی کے علاوہ نون لیگ کے دس کے قریب اراکین نے بنی گالہ میں وزیر ِاعظم سے ملاقات کی۔ گمان تھا کہ نون لیگ کی جارحانہ پالیسی اور حکومت گرانے کے عزم کے پیچھے اس کے تمام اراکین سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں لیکن سیاسی وفاداریوں کا موسم تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی ؟ لیکن یہ تبدیلی بلامعاوضہ کم ہی ہوتی ہے ۔
سیاسی گھوڑوں کی خریدوفروخت میں طاق ‘ دونوں روایتی سیاسی جماعتوں نے مذاق ِجمہوریت ‘ معاف کیجیے ‘ ''میثاق ِجمہوریت‘‘ طے کیا‘ آئین میں تبدیلی لاکر منتخب شدہ اراکین کو سیاسی جماعت تبدیل کرنے سے روک دیا۔ ایسی صورت میں ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم ہوسکتی ہے‘ لیکن عدالتوں کا دروازہ کھلا ہے ۔ کئی قانونی اور آئینی موشگافیاں موجود ہیں۔ بنی گالہ یاترا کرنے والے اراکین اپنا الگ دھڑابنا سکتے ہیں۔ نون لیگ کے مزید اراکین بھی اپنی پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ ضرورت کے وقت وہ حکومت کے کام آنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ یہ ایک ایساسیاسی کاروبار ہے جو چالیس سال سے جاری ہے ۔ درست کہ تحریک ِ انصاف کو اقتدار نیا ملاہے‘ لیکن اس کی صفوں میں کھلاڑی پرانے ہی ہیں۔ وہ سیاسی منڈیوں کے اتار چڑھائو جانتے ہیں۔
خاں صاحب بھی اپوزیشن سے جنگی انداز میں نمٹ رہے ہیں‘ اور محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ۔ صاف بات ہے ‘ اصولی طور پر پنجاب میں نون لیگ کی ہی حکومت بننی چاہیے تھی لیکن تحریک ِ انصاف کو مرکز میں مضبوطی کے لیے پنجاب چاہیے تھا۔یہ کوئی راز نہیں کہ آزاد اراکین ِاسمبلی کیسے تحریک ِانصا ف میں شامل ہوئے ۔ نون لیگ کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ تحریک ِانصاف موسم بہار کا پتہ دیتی تھی؛چنانچہ سیاسی پرندے ہوا کا رخ پہچاننے لگے اور پھر انہیں شگوفوں کی جھلک بھی دکھائی گئی ۔ صادق سنجرانی صاحب کو تبدیل کرنے کیلئے شروع ہونے والی سیاسی منڈی اب محدود نہیں رہے گی۔ بنی گالا جانے والے راستے پر قدموں کے نشانات بڑھتے جائیں گے۔ زرداری صاحب‘ سب پر بھاری ہوا کرتے تھے‘ لیکن کیا اب بھی؟ اگر تحریک ِانصاف صادق سنجرانی کو بچانے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کا اگلا محاذ سندھ حکومت ہوگی‘ اگر منڈی لگ ہی چکی‘ تو سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے ارکان میںروایتی قیادت کے خلاف بغاوت کے آثار تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اب ‘جبکہ زرداری صاحب حراست میں ہیں‘ تلاش کرنے سے کچھ بھی مل جاتا ہے ۔