"RBC" (space) message & send to 7575

بدعنوانی زوروں پر

آبائی علاقہ، وہاں کے لوگ، ورثہ اور ثقافت کس کو عزیز نہیں؟ صدیوں کے رشتے، روایتی بندھن، لگائو، دیہات سے اٹھ کر شہروں میں بسنے والوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ زندگی کا سرمایہ تو وہی دن ہیں جو ہم نے لڑکپن میں سکولوں، کھیتوں، کھیل کے میدانوں اور کچھ ویرانوں میں بسر کیے ۔ ہو سکتا ہے کہ میں، اور مجھ جیسے کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہوں، کہ راجپوروں کی یاد دیارِ غیر کے پرتعیش آرام دہ اور پرسکون ماحول میں بھی چین نہیں لینے دیتی، بلکہ واپس کھینچ لاتی ہے۔
سب نے اپنے چھوٹے بڑے گائوں، محلوں، قریب کے قصبوں اور ضلعوں کے بارے میں اپنی آنکھوں میں سہانے خواب سجا رکھے ہیں۔ کچھ نے تو ان کی تعمیر میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اُن کی خواہش ہے کہ لوگوں کو انصاف ملے، سرکاری اہل کار محنتی اور دیانت دار ہوں۔ بہت سے ہیں کہ شکست خوردہ ہو چکے ہیں، تھک ہار کر بڑھاپے کی دہلیز تک جا پہنچے ہیں، کمر جواب دے گئی ہے، ترقی اور خوشحالی کے لیے باندھی گئی امید ایک خواب کی طرح چکنا چور ہو چکی‘ آس کا سورج ڈھل گیا، اب تو خواب دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی کہ گائوں اور قصبے صاف ہوں، کسی سرکاری دفتر جائیں تو کسی کی مٹھی گرم کیے بغیر جائز کام ہو جائے۔ ویسے انصاف تو دروازے پر ہی ملتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں کسی کے سرکاری دفتر جانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ لوگوں کو عام طور پر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سرکاری دفاتر، خاص طور پر وفاق اور ریاستوں کے، کہاں ہیں۔ مقامی حکومتوں کے دفاتر گھروں کے قریب ہوتے ہیں، لیکن وہ شہریوں کی خدمت کے لیے خود اُن کے پاس پہنچتے ہیں۔ ہمارے اضلاع میں آپ کسی بھی عام آدمی سے معلوم کریں کہ ڈپٹی کمشنر کون ہے، ڈی پی او کہاں سے آیا ہے، واپڈا کا دفتر اور عدالتیں کہاں ہیں، آپ کو ایک سبق کی طرف فرفر سب سنا دے گا۔ ہمارے آبائواجداد، ہمارے ہم عصر اور اب ہمارے نوجوان دفتروں کے چکر لگانے میں ہی زندگی کا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں، اور کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری دفتر ہماری زندگی کا اہم حصہ کیوں ہے؟ اس لیے وہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔ 
پینتالیس سال کالم نگاری کے بعد خود کو صحافی، چلیں نیم پختہ ہی سہی، کہہ سکتا ہوں۔ سوال اٹھانا صحافت بھی ہے، اور شعوری زندگی کی علامت بھی۔ اکثر افراد مجھے استاد سے زیادہ صحافی سمجھتے ہیں۔ اخباروں اور صحافیوں نے ہمیشہ مزاحمت کا علم بلند رکھا۔ لیکن اب سب علم بردار نہیں، کچھ حاشیہ بردار بھی ہیں۔ لیکن جو بھی برائی کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں، وہ قابلِ قدر انسان ہیں۔ میں ایسے افراد اور اداروں کی تکریم کرتا ہوں۔
جو سوال میں، اور میرے ہم عصر کالم نگاروں نے اٹھائے ہیں، وہ ہمارے معاشرے میں بد عنوان نوکر شاہی، سیاسی گھرانوں اور اُن کے گماشتوں کے خلاف قلمی مزاحمت ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ سوال کڑکڑاتی دھوپ میں، سڑک کنارے کھڑے ایک راہ گیر نے پوچھا تو میں چونک گیا۔ اُس نے سڑک کے درمیان کھجور کے سینکڑوں خشک اور لمبے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ ترقی ہے؟ عمران خان کی تبدیلی کی کوشش؟ کرپشن فری پاکستان؟ اس کے لہجے میں تلخی تھی۔ چلچلاتی دوپہر کی سی سختی، کڑواہٹ، اور راجن پور میں تعینات اعلیٰ سرکاری حکام اور عملے کے خلاف نفرت۔ چونکہ میں بھی ایک کاشت کار، اور مشغلے کے طور پر مالی ہوں، اور کئی دہائیوں سے درخت لگا رہا ہوں، تو خشک کھجور کے درختوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ آخر یہ عجیب و غریب فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے سلگتے ماحول میں کھجور کے تن آور درخت کہیں سے اکھاڑ کر سڑک کے درمیان لگا دیے جائیں اور وہ بھی جون کے مہینے میں؟ آخر جلدی کیا تھی؟ ساون آنے والا ہے، کچھ انتظار کر لیتے۔ کسی نرسری میں جائیں اور پودوں کا مطالبہ کریں تو نرسری والا آپ کو نہایت نیک نیتی سے مشورہ دے گا‘ ایک ماہ اور انتظار کر لیں‘ ابھی لگائے تو مرجھا جائیں گے۔ 
کھجور کے درختوں کا کھرا ناپا۔ ضلع راجن پور کی سیاست، اور سیاسی گھرانوں سے کچھ واقفیت ہے، ادب اور احترام کا روایتی رشتہ قائم رکھا ہے۔ لیکن چونکہ ضلعی انتظامیہ میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، اور پھر ہمارا اُن سے کوئی تعلق نہیں رہا، اور نہ ہی کبھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ کون آ رہا ہے، کون جا رہا ہے۔ یوں تو بے حسی اور شکست خوردگی عوامی ضمیر میں رچ بس گئی ہے، لیکن ضمیر کی روشنی اور قلم کی روشنائی کہتی ہے کہ ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ یہ وہ سٹیج ہے جس پر اہلِ دانش، صحافی اور شاعر اور ادیب، سب کا کردار ایک سا ہے۔ مزاحمت۔ حالات جو بھی ہوں، بد عنوان حکمرانوں اور سرکاری اہل کاروں کی کام چوری کے خلاف بات جاری رکھیں۔ یقینا تمام صحافی یکساں سوچ نہیں رکھتے، لیکن میرے نزدیک تمام لکھنے والے اپنی اپنی بساط کے مطابق کسی نہ کسی طور مزاحمت کر رہے ہیں؛ اگرچہ دھیان سیاسی غل غپاڑے پر ہے کہ وہاں رونق بہت ہے، اور پھر لوگوں کو بھی یہ سیاسی تماشا مرغوب ہے۔ بہت کم کے پاس فرصت ہے کہ دیکھیں نچلی سطح پر کیا ہو رہا ہے۔ اگر حکومت کی کارکردگی، اس کے کارناموں، دیانتداری کے دعووں، تبدیلی کے نعروں کو پرکھنا ہو تو انہیں ضلعی دفاتر کی سطح پر چیک کریں۔ وہاں لوگوں سے بات چیت کریں، سب پتہ چل جائے گا۔ 
اگر آپ کو گزشتہ کئی سالوں سے انگریزی اور اب اردو مضامین دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ میں عمران خان اور تحریک ِانصاف کو امید کی کرن سمجھتا ہوں۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ ملک میں جس تبدیلی کے خواب عمران خان نے دکھائے ہیں، وہ ممکن ہے۔ پاکستان اور معاشرہ مثبت انداز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن راجن پور میں جو کچھ دیکھا وہ ان خوابوں کے برعکس ہے۔ یہ نیا پاکستان نہیں، وہی پرانا، خستہ، بد عنوان اور زنگ آلود نظام ہے۔ صرف راجن پور ہی نہیں، ہر ضلع میں افسران کی تقرری اور تبادلے سیاسی وڈیروں کی سفارش پر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ جناب عثمان بزدار صاحب کرتے ہیں۔ صحافی برادری کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ وہ یہ کام کر لیتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ سیاسی سمجھ بوجھ، فہم و ادراک اور دانش ہمارے سیاسی مکتب کے ممنوع پیمانے ہیں‘ لیکن تمام پنجاب مخمصے میں تھا کہ آخر عمران خان نے کیا خوبی دیکھی کہ اس منصب پر فائز کیا۔ اس سوال کا ہنوز کوئی جواب نہیں ۔
ہو سکتا ہے کہ عمران خان صاحب کو پتہ ہی نہ ہو کہ ضلعی سطح پر کیا ہو رہا ہے اور ضلعی معاملات کیسے چلائے جا رہے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ وہاں کرپشن کا کیسا بازار گرم ہے۔ وہ اگر اندرونی معاملات سے غافل رہے تو خدشہ ہے لوگ پرانے پاکستان کو واپس لانے کے لیے تحریکیں نہ چلانا شروع کر دیں۔ منتخب مقامی حکومتوں کو تحریکِ انصاف کی اس نئی حکومت نے پہلے تو چلنے نہیں دیا، اور پھر ایک نیا قانون بنا کر اُن کو ختم کر دیا۔ اس سے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنروں کے پاس چلے گئے ہیں۔ راجن پور میں ایسے ہی سرکاری عہدے دار نے بتیس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز اپنے اکائونٹ میں ڈالے اور ایک ماہ کے اندر اندر وہ ہضم کر لئے گئے۔ ترقیاتی کاموںکی مد میں کھجور کے کچھ درخت لگائے، منصوبے کاغذوں میں مکمل کیے، اور سب ختم۔ جمہوریت میں شہریوں سے مشاورت ہوتی ہے، اس کے بعد اُن کی ضرورت کے مطابق منصوبے بنتے ہیں۔ اکثر اضلاع میں سیاسی وڈیرے کے من پسند کرپٹ افسران تعینات ہو چکے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے ترقیاتی فنڈز کو اسی طریقے سے ہضم کیا گیا۔ لاہور میں سینئر افسران سے بات کی کہ بتائیں کس سے شکایت کریں، کمشنر، چیف سیکرٹری سے؟ تو جواب تھا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پنجاب کی ضلعی نوکر شاہی سیاسی خاندانوں کی خدمت گزاری کے عوض کرپشن کے لیے آزاد ہے۔ سب کو معلوم ہے کون کس کی سفارش پر ہے، اور کیا کر رہا ہے۔
تو کیا سب یہ تماشا خاموشی سے دیکھتے رہیں گے؟ ہرگز نہیں۔ اس پر آواز اٹھے گی، اور اٹھ رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ راجن پور اور دیگر اضلاع میں سرکاری رقوم مختلف محکموں کے سربراہوں نے اپنے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کرکے ہضم کر لی ہیں، اور کچھ کھجور کے پودے لگا دیے ہیں۔ ان کا نوٹس لیا جائے۔ وزیرِ اعظم صاحب سے کچھ کہنا بے کار ہی لگتا ہے، لیکن اُنہیں جاننا چاہیے کہ راجن پور کی مثال سامنے رکھیں تو پنجاب آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ابھی تک نیا پاکستان ایک سراب کی مانند ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں