''ووٹ کو عزت دو‘‘ بھی کیا خوب نعرہ تھا۔ جس نے بھی گھڑا‘ کمال ہی کر دیا۔ نہایت جامع‘ بلیغ‘ مختصر اور بالکل نشانے پر۔ یہ ابہام بھی خوب تھا کہ لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ آخر ووٹ کی عزت کس سے مانگی جارہی تھی۔ سیاسی نعروں کی کشش اور اہمیت ان کی معنی خیز جملے بندی میں ہوتی ہے۔ ''روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ ہماری نوجوان نسل کو خوب بھایا اور اس نے کرشمہ کر دکھایا۔ ''تبدیلی‘‘ ان دونوں نعروں سے زیادہ جادو اثر نکلی۔ آج بھی یہ کچھ دِلوں میں بسی ہوئی ہے۔ ان نعروں کی گونج ابھی تک کچھ جماعتوں کی نیندیں خراب کر رہی ہے۔ تبدیلی کہیں زیادہ معنی خیز بھی ہے اور اس کے اہداف کئی رُخی ہیں ۔ سامنے تو موروثی سیاسی گھرانے اور ان کی سیاست تھی‘ اور اب بھی ہے اگر کبھی حالات نے پلٹا کھایا تو۔
آج کل تو کچھ تبدیلی والے تبدیل بھی ہو رہے ہیں‘ دیکھیں یہ کھیل کب تک چلتا ہے۔ تبدیلی کا جن ابھی بوتل میں بند ہے‘ جب اسے بند کرنے والے اس بوتل پر مضبوط ڈھکن لگا کر چین کی بانسری بجائیں گے تو دیکھیں گے کہ کیا واقعی جن قابو میں آ چکا ہے یا نہیں۔ سنا تو یہی ہے کہ کبھی کوئی جن بند نہیں رہتا۔ بوتل جتنی مرضی سخت اور تنگ کیوں نہ ہو‘ وہ اسے توڑے بغیر ہی باہر نکل آتا ہے۔ آخری خبریں آنے تک تبدیلی کا جن بے قابو بتایا گیا ہے۔ یہ کھیل چونکہ ہماری اور آپ کی آنکھوں سے دور کہیں اور ہو رہا ہے‘ اس لیے ہم خبروں کو غور سے سنتے ہیں۔ اگرچہ دیکھنے کی اب ہمت نہیں رہی اور اُن سے اندازے لگاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر بند کرنے والوں کو کامیابی کے روشن امکانات دکھائی دیتے تو وہ آئین کے مطابق90دنوں کے اندر انتخابات کرا کے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ تبدیلی سے خوفزدہ اب بھی پریشان ہیں کہ جن کسی وقت بھی بوتل توڑ کر باہر نکل آیا تو کیا ہو گا۔ ان کے کیسے کیسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ انتخابات سے بھاگ نہیں رہے‘ دیر سویر ہو سکتی ہے‘ مگر یہ ضرور ہوں گے۔
سنا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں آئین کی حدود میں رہ کر کھلے اور شفاف انتخابات‘ جہاں سب کے لیے میدان ہموار ہو‘ میں مقابلہ کرکے اقتدار حاصل کرتی ہیں۔ آپ نے بھی بالکل یہی سنا ہو گا۔ تو پھر ساٹھ دن کی حد پھلانگ کر نوے دن اور پھر خموشی کس بات کی دلیل ہے؟ دیوار پر جلی حروف سے لکھا ہوا ہے بلکہ ملک کی ہر دیوار پر جہاں بھی جائیں‘ سامنے ان آنکھوں میں تیر کی طرح چبھتے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ انتخابات سے مکمل جان چھڑاؤ‘ ریاست بچاؤ اور سیاست کو کچھ وقت کے لیے سستانے دو۔ پردے کچھ ہٹتے بھی نظر آرہے ہیں مگر صورتحال شاید وہ نہ بنے کہ ساری دنیا ہمارے اوپر پابندیاں لگانے کے لیے کمر باندھ لے۔ دوسرا راستہ جن کو بوتل میں بند کرو‘ مشہورِ زمانہ پریس کانفرنس منعقد کراؤ‘ مقدمات بناؤ‘ حوالات‘ تفتیشی خانوں اور عدالتوں کے جال میں ایسا پھنساؤ کہ میدان صرف موروثیوں کے لیے ہی ہموار ہو۔ دھاندلیوں کا آغاز تو ہو چکا۔ دیکھتے نہیں کہ غیرجانبدار نوکر شاہی کے پرانے کل پرزوں کو جو سیاسی گھرانوں کے معاونینِ خاص رہے اور جن پر ناجائز دولت بنانے کے بے پناہ الزامات لگے‘ کو نگرانوں میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ دوسرا بڑا سیاسی گھرانا سیخ پا ہے کہ ان کے بندے تعداد میں زیادہ کیوں ہیں اور بدعنوانی میں ملوث صرف اس کے جانثاروں کا نام کیوں لیا جا رہا ہے۔ لین دین کی سیاست میں معلوم یہی ہوتا ہے کہ رائے ونڈ کا حصہ کچھ زیادہ ہے۔ لاڑکانہ کچھ فاصلے پر ہے لیکن دونوں کی بحالی کا عمل تو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے سے شروع ہو چکا۔ دیکھتے ہیں کہ کتنے اور کب تک مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں اور اُنہیں خوش خبریاں ملتی ہیں‘ اور عزت کی بحالی کی در پردہ جدوجہد اپنا رنگ لاتی ہے۔
ہمارا تو سیاست اور زندگی کا فلسفہ نہایت ہی سادہ ہے کہ ووٹ کو عزت ملے‘ سب عزت کے ساتھ زندگی گزاریں مگر ایک گزارش ہے کہ اس بیچارے ملک اور پسے ہوئے عوام کی بھی کوئی عزت فرمائیں۔ انہیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر اس طرح روندتے نہ چلے جائیں۔ ہمارے سیاسی فلسفے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی اور اب اتنی خواری دیکھنے کے بعد اور ساری عمر اس دشتِ سیاست کی سیربینی میں گزارنے کے بعد کوئی ایسی خواری دل سے کیوں قبول کرے گا۔ووٹ کو عزت دو کی تحریکِ آرزو ایک زمانے میں جذباتی تڑپ تھی۔ اس میں حدت اتنی تھی کہ عزت پر اتنا زور پڑتا کہ چہرے لال دکھائی دیتے تھے۔ اور یہ بھی دیکھا کہ ان چار حروف کی گردان کرتے اور عزت برباد کرنے والوں کو للکارتے ہوئے گلے بھی بیٹھ جاتے تھے۔ لیکن کیا کریں‘ بیماری ہی طول پکڑ گئی اور بیماری بھی ایسی جان لیوا کہ وطن عزیز کے کسی شفا خانے میں علاج ممکن نہیں تھا۔ اس کا علاج صرف لندن میں ہی ہو سکتا تھا۔ اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں کہ تبدیلی کا زور ٹوٹنے کے بعد لندن کے معالجوں نے سب ٹھیک ہونے کی سند جاری کردی ہے۔ ہمارے خیال میں زیر علاج تو صرف بڑے میاں صاحب تھے‘ دیگر کو کیا ہو گیا کہ ووٹ کو عزت دو کے اتنے بڑے نعرے کو لوہے کے بھاری بھرکم صندوق میں بند کرکے چابی کسی گہرے دریا میں پھینک دینے کے بعد کسی کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ معاملہ شاید ووٹ کی عزت کا نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو دوسروں کے مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا۔ مسئلہ اپنی عزت کا تھا کہ بغیر اقتدار کے اس کو ہر طرح کے خطرات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خبر رکھنے والے صحافی کبھی حدیبیہ پیپرز مل تو کبھی پاناما میں کمپنیاں تو کبھی لندن کے محلات اور منی لانڈرنگ کی کہانیاں تلاش کرکے عزت اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرپشن کے کیسز بھی دوبارہ کھل جاتے ہیں اور پھر یہ جو تبدیلی والوں کے آنے سے پانچ سال پہلے کرپشن اور دھاندلیوں کا جو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر عوام کے سامنے رکھا گیا اور عوام کے ذہن میں ایسے سوال چھوڑ دیے کہ جن کا معتبر جواب بھی خود تبدیلی والے ہی دیتے تھے تو بے چینی بڑھی اور عزت و احترام کی بحالی کے لیے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جہاں سے کسی زمانے میں بہت دوریاں تھیں۔ ووٹ کو عزت دو اب قابلِ اعتبار نہیں رہا کہ جس مقصد کے لیے یہ نعرہ گھڑا گیا تھا وہ پورا ہو چکا۔ روٹی کپڑا اور مکان کی اب کوئی بات نہیں کرتا کہ اعتبار نہیں‘ سوائے ہماری نسل کے باقی ماندہ لوگوں کے جن کی محبتیں بھٹو صاحب کے ساتھ تھیں۔ تبدیلی والوں پر بھی اعتبار ختم ہو چکا تھا۔ سب کو سب پتا ہے کہ انہیں گھر بھیجنے کی جلدی کیوں تھی‘ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ووٹ کو کتنی عزت ملی‘ اتنی تو ووٹ دینے والے خود ہی حساب کتاب کرسکتے ہیں۔ اس لیے تو ہم ووٹ کو عزت دو کے نظریۂ حیات و سیاست پر قائم ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کا اعتبار صرف نعروں پر نہیں‘ ہر نوع کے حکمرانوں سے اٹھ چکا ہے۔ اس وقت تو وہ غصے میں ہیں کہ کس طرح ملک کو تباہ و برباد اور اداروں کو مفلوج‘ آئین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ گزارش ہے کہ عزت کھو جائے تو اس کو کہیں سے ڈھونڈ کر لانا ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ عزت کے معیار بدل چکے ہیں۔