آج صرف لاہور کی بات کرتے ہیں کہ ہماری پہلی اور آخری محبت یہی شہر ہے۔ جہاں بھی رہیں لاہور اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دور جا بسیں تو بھی اس کے کسی زمانے کے باغات‘ مال روڈ اور انارکلی کی رونقیں ‘ چائے خانوں کی محفلیں‘ علمی اور ادبی مذاکرے خلوتوں میں ہمارے دل کی دنیا آباد کر تے ہیں۔ پورے 55 سال پہلے اپنے دور افتادہ علاقے سے ریل گاڑی سے طویل سفر طے کر کے لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اترے تو کچھ دیر ہماری دنیا تھم سی گئی۔ ایسی عالی شان عمارت پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اُس وقت سٹیشن کے قریب ہر طرف ٹانگے نظر آتے تھے۔ کہیں کہیں ‘ خال خال کوئی رکشہ بھی دکھائی دیتاتھا۔ ہم اپنا فنِ تقریر آزمانے آئے تھے اور مقابلہ جامعہ پنجاب کے ہال میں تھا۔ اندر داخل ہوتے ہوئے تو میرے اندر کا دیہاتی گھبرا سا گیا۔ ہم بلوچی چپل اور شلوار قمیض میں اور لاہوری تو اُس زمانے کے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ابھی لندن سے لوٹ کر آئے ہیں۔ شاعر ‘ادیب‘ صحافی‘ کلرک اور اساتذہ زیادہ تر مغربی لباس میں نظر آتے تھے۔ سفر کی باتیں پھر کبھی سہی ‘ بتانا یہ تھا کہ ہم تو لاہور کے ہو گئے مگر لاہور ہمارا نہ ہو سکا۔ بہت کوشش کی مگر پھر راستہ جدا کر لیا۔ اب تو دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اکثر ادھر ہی مقیم رہتا ہوں مگر ٹھکا نہ اور مستقل پتہ ہمارے مقدر نے کہیں اور ٹھہرایا ہے۔
اب یہ لاہور وہ نہیں کہ گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن جس کے مضافات میں تھے۔جامعہ پنجاب نیو کیمپس تو ویرانے میں تھا۔ اب ایک بڑے شہر سے جڑے سینکڑوں شہر آباد ہوچکے ہیں ۔ جب یہ شہر بننے لگے تو یہاں حکومت موجود تھی‘ رخصت لے کر کہیں نہیں گئی تھی۔ اگر کوئی چیز رخصت پر تھی تو وہ عقل تھی‘ اور معلوم ہوتا ہے کہ اپنی طویل چھٹیاں گزشتہ 50 دہائیوں سے ملک سے باہر ہی گزار رہی ہے۔ یہ صرف میری نسل کے لوگوں کوہی یاد ہے جنہوں نے لاہور کو ایک مربوط‘ منظم ‘ صاف ستھرے اور خوبصورت شہر کی صورت میں دیکھا ہے یا ان گنے چنے شہریوں اور صاحبِ فراست خواتین و حضرات کو جو شہروں کے بڑھتے ہوئے مسائل کو سمجھتے ہیں۔
کئی ہفتے جامعہ کی چار دیواری میں رہ کر بوریت سوہانِ روح بن کر جسم کو نوچنا شروع کردیتی ہے ۔ سفر کبھی شمال اور کبھی جنوب کی طرف باندھ لیتا ہوں۔ ہم پر اوپر والے کا کرم ہے کہ گاڑی رکھنے کی استطاعت ہے اور خود چلانے کی بھی۔ البتہ اب دیکھیں گے کہ جس طرح پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ہم کب تک جیب پر بوجھ محسوس کیے بغیر باہر نکلتے وقت دل کی بات مان پائیں گے۔ لوگوں کے بارے میں ہم نے سوچنا اب بند کر دیا ہے کہ اگر وہ خود سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں تو ہمارے ان کے بارے میں سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ کہا جاتا ہے کہ استادو ں‘ صحافیوں اور قلم کاروں کا کام عوام کے اندر شعور پیدا کرنا ہے۔ کبھی ایسا ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ وعظ و نصیحت اور کم و بیش ہر گھر ‘ہر محلے میں لاؤڈ سپیکر اور جلسہ جلوس جتنا ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اس کا موازنہ ہم ترقی یافتہ ملکوں سے کریں بلکہ ساری دنیا کو ملا کر کر لیں تو پھر بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ملک ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔لیکن اگر اس میں کوئی تاثیر ہوتی تو دودھ میں ملاوٹ کیوں ہوتی ؟اور کون سی ایسی چیز اب رہ گئی ہے جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ آپ غلط اندازہ نہ لگائیں کہ پتہ نہیں دورِ حاضر کی ملاوٹی سیاست کی بات کر رہا ہوں۔ بہت کہتے ہیں کہ حکمران طاقتور ہیں‘ ان کے گماشتوں کے بعد بلند و بانگ دعوے اورپھرتیاں تو ان سے بھی زیادہ طاقتور معلوم ہوتی ہیں۔مگر ہر دفعہ جانے کے بعد جب بھی کارکردگی کا حساب کتاب کرنے کی جسارت کی تو جواب میں دو چار رٹے رٹائے فقرے جو چالیس سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوئے۔کہ مسائل کا انبار تھا‘ ہماری راہ میں کانٹے بوئے گئے تھے‘ جانے والے تباہی اتنی پھیلا گئے کہ دہائیاں لگیں گی ان کا گند صاف کرنے میں ۔ آخر وہ اپنی تین تین چار چار باریا ں لینے میں تو مہارت رکھتے تھے‘زر و دولت کے انبار لگانے کا بھی فن تھا۔ اربوں ڈالرز کے بیرونی قرضے لیے‘ تو پھر کہاں گئے وہ ترقی کے دعوے؟
ایک بار دل کے ہاتھوں مجبور لاڑکانہ کی طرف نکل گیا۔مقبروں کی زیارت بھی کی اور کچھ دیر کہیں بیٹھ کرسیاسی سیربینی کی فلم بھی ذہن میں چلانی شروع کی‘شہر کو بھی دیکھا ۔ہو سکتا ہے اب بدل گیا ہو مگر جو غلاظت‘ گندی اُس وقت دیکھی‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا شہر نہیں معلوم ہوتا تھا جو نفاست‘ رہن سہن اور تہذیبِ حاضر کی علامت خیال کیے جاتے تھے۔ رائیونڈ والوں کی مثالیں لاہور میں دیکھنی ہوں تو کبھی میرے ساتھ کوئی پروگرام بنائیے ‘لیکن شرط یہ ہے کہ پورا دن پیدل ہی چلنا ہوگا‘ کھانا پانی چائے ساتھ لانا ہوگا اور ہیلتھ انشورنس سرٹیفکیٹ بھی بنوا کر رکھنا ہوگا۔ جب وہاں میاں کے نعرے بجتے تھے اور متواتر 40 سال سے بج رہے تھے تو ہم اس کے بھی تماشائی ہیں۔ دل کرتا ہے کہیں نکل جائیں اور ان کی تاریخی ترقی کے مناظر دیکھ کر کئی ہفتوں کی بوریت کو ختم کریں۔ اصل لاہور کی تلاش میں سال میں تین چار مرتبہ سارا دن پیدل نکل جاتاہوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر خراب و خوار ‘ مایوس اور پسینے میں شرابور ہوکر واپس آنا ہے تو ہر دفعہ چکر لگا کر بے حال ہونے میں کیا منطق ہے ؟ بات یہ نہیں ۔ ہر دفعہ احساس ہوتا ہے کہ شاید ترقی کو میری کمزور بینائی نہ دیکھ سکی ہو ۔ تو چلیں ایک مرتبہ پھر ترقی یافتہ لاہور کو تلاش کرتے ہیں۔ کل ایسا ہی کیا مگر پہلی مرتبہ گاڑی پر سوار ہو کر۔ صبح مال روڈ ‘نیلا گنبد ‘ انار کلی کی طرف جاتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ کسی سیاسی جلوس میں شریک ہوں یا سرکس کے ماہر موٹر سائیکل سواروں کے درمیان الجھ گیا ہوں۔ پارکنگ کے بارے میں کیا کہیں ‘بہتر تھا پیدل ہی جاتا۔ پھر سوچا لاہور کے موچی دروازے ‘ رنگ محل اور شاہ عالمی کی سیر آج ہی کیوں نہ ہو جائے۔ ظلم ہے کہ بقول فیض صاحب‘ اپنے شہر میں اپنے گھر کا پتہ پوچھتے ہیں۔ کسی سے پوچھا کہ کس طرف جاؤں۔ بس ایک دفعہ اس ٹریفک کی بھیڑ میں کہیں پھنس جائیں تو کوئی ہوش نہیں رہتا کہ اب کہاں جا رہے ہیں۔ بازاروں کی دونوں جانب دکانداروں کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں پارک تھیں‘ درمیان میں پتلی گلی اور دونوں جانب ٹریفک کی روانی‘لیکن اصل میدان موٹر سائیکل کے ہاتھ تھا۔ دو گھنٹے میں برانڈرتھ روڈ ‘ بانساں والا بازار اور شاہ عالمی کے ایک چوک سے چکر کاٹ کر خدا خدا کر کے ترقی یافتہ لاہور کی سیر مکمل کی۔ عوامی شعور اور حکمرانوں کے کارنامے لاہور کے دو تہائی حصوں میں دیکھنے ہوں تو بندہ حاضر ہے۔ہر طرف گندگی اتنی ہے کہ آپ نہ پانی پی سکتے ہیں نہ چائے ۔ دھواں اور گرد اتنی کہ بہتر ہے آپ لوہے کے پھیپھڑے لگوا کر جائیں۔ یاد رہے اسی لاہور میں اومنی بس چلتی تھی۔ ڈبل ڈیکرمیں جامعہ پنجاب سے رنگ محل تک کئی بار سفر کیا ۔ پنجاب اور اسلام آباد میں اربن ٹرانسپورٹ کو ختم کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ جب یہاں تباہیاں لا رہے تھے دہلی میں انڈر گراؤنڈ ریلوے اَسی کی دہائی میں چل رہی تھی۔ حکمرانوں نے اس کا حل یوں نکالا کہ سینکڑوں ہزاروں ایکڑوں پر اپنی الگ بستیاں بنا لیں۔ دورویہ سڑکیں اور گیٹ لگا لیے۔ ان سب شہروں کو جوڑنے کے لیے نہ کوئی انڈر گراؤنڈ نہ پبلک ٹرانسپورٹ‘ بس رِنگ روڈ بنادی اور موٹر وے بن گئی۔ غالباً لاہوریوں کو ایسے ہی حکمران چاہئیں تھے۔