چولستان ہمارے آبائی علاقے سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ دریائے سندھ کے مشرق کی طرف تقریباً تیس چالیس کلومیٹر سفر طے کریں تو آپ کو چولستان کے پرانے‘ نئے اور ملے جلے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ایک صدی قبل جب انگریز راج اور ریاست بہاولپور کے نواب پنجند نہری منصوبہ تشکیل دے کر کھدائی کا کام شروع کر رہے تھے تو ریاست کی زیادہ تر زمین ریت اور مٹی کے ٹیلوں پر مشتمل تھی۔ دریائوں کے ساتھ گھنے جنگلات تھے جن میں کئی نوع کی جنگلی حیات پائی جاتی تھی۔ عام لوگ سیلابی پانی سے کھیتوں کو سیراب کرتے‘ فصلیں اگاتے اور مال مویشی پال کر گزارہ کرتے تھے۔ ریاست میں سے چار دریا بہتے تھے۔ مشرق میں بیاس‘ درمیان میں ستلج اور مغرب میں راوی اور چناب اس جگہ ملتے تھے‘ جہاں آج بھی ہیڈ پنجند موجود ہے۔ انگریزی دور کے نہری نظام پر تو لوگوں نے توجہ دی ہے‘ اور بے شک اس وسیع نظام نے زرعی انقلاب کی بنیاد رکھی‘ مگر نہریں دریائوں کے ساتھ ہر جگہ پنجاب اور سندھ میں موجود تھیں۔ زمینداروں نے اپنے طور پر نہریں کھود رکھی تھیں‘ اور جب بارشوں اور سیلابوں‘ خصوصاً مون سون کے موسم میں ان نہروں میں پانی آتا تو لوگ مختلف فصلیں کاشت کرتے۔ زیادہ تر آب پاشی کنوئوں سے کی جاتی تھی۔ ہر نوع کے پھلوں کے باغات عام تھے‘ اور سیلابی زراعت نے اس ریاست کے لیے خوش حالی کا سامان کیا تھا۔ اس کی وجہ سے شہر بھی آباد کیے گئے۔ بہاولپور‘ بہاولنگر اور رحیم یار خان‘ یہ پورا علاقہ افغانستان اور بھارت کے درمیان مشہور راہداری تھا۔ دونوں جانب سے لشکر اور فوجوں کے گزرنے کے راستے بھی یہاں تھے۔ بڑا زرعی انقلاب نہری نظام کا مرہونِ منت ہے۔ اس منصوبے میں ریاست جیسلمیر بھی شامل تھی۔
نہری نظام کی تکمیل کے آخری مراحل میں نوا ب بہاولپور نے مشرقی پنجاب سے آباد کاروں کو مفت زمینیں الاٹ کیں اور ان کے ساتھ وہ کاشت کار قومیں بھی ریاست میں آباد ہونے لگیں جنہیں فیصل آباد اور پنجاب کی نئی نہری آبادیوں میں زمین مفت یا بہت سستے داموں ملی تھی۔ پرانی ریاست بہاولپور میں اور اس کے صحرائی علاقے روہی یا چولستان میں قدم رکھیں تو آپ اس کی خوبصورت رنگا رنگی سے مسحور ہو جاتے ہیں۔ پہلی چیز جو مشاہدے میں آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمام علاقہ صحرا نہیں ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سے لے کر چولستان کے صحرا کی حد تک‘ نہری زراعت اسی طرح ہے جو آپ پنجاب کے دیگر حصوں میں دیکھتے ہیں۔ سڑکیں پکی اور کئی سمتوں میں نکلتی ہیں‘ اور ان کے کناروں پر گائوں اور پھیلتے ہوئے قصبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں اس علاقے میں جانا ہوا۔ ایک جگہ کھڑے ہوکر دور دور تک نگاہ دوڑائی تو زمین نے سرسوں کے پیلے پھولوں اور گندم کے سبزے کی چادر اُوڑھ رکھی تھی۔ درمیان میں کہیں کہیں گنے کے کھیت بھی نمایاں نظر آ رہے تھے۔ یہ تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہاں آم کے گھنے باغات بھی ہوں گے۔ ان کھیتوں اور آبادیوں کے درمیان ادھر اُدھر ریتلی مٹی کے ٹیلے اس علاقے کے ماضی کی یاد تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان پر وقت ٹھہر گیا ہے۔ اس قدیمی صحر ا کی آبادی‘ ہمارے زمینداروں اور کسانوں کی جفاکشی اور عزم وہمت کی سنہری داستان کسی سے کم نہیں۔ لیکن یہ سب ایک صدی کی محنت کا اثر ہے کہ پرانا صحرا آج جدید زراعت اور باغبانی میں بدل چکا ہے۔
اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے کئی دیہات‘ آبادیوں اور آخر میں ایک کچی سڑک پر سے گزرنا پڑا۔ کئی معنوں میں یہ منفرد اور متنوع ثقافتی رنگوں کا مجموعہ ہے۔ ایک جگہ رک کر راستہ معلوم کرنا چاہا تو مخاطب سے پوچھا کہ وہ کس قوم اور برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ جواب ملا کہ وہ غیر مسلم مینگوال ہے۔ اس سے قبل یہ لفظ کبھی نہیں سنا تھا۔ قدیمی چولستانیوں میں مہر قوم‘ جو زیادہ تر اونٹ پالتے تھے‘ اور اب بھی ان میں سے کچھ صحرا میں گلہ بانی کرتے ہیں‘ اور ہندو مذہب سے تعلق رکنے والی برادریوں کے علیحدہ علیحدہ گائوں آپ کو نظر آئیں گے۔ اس علاقے میں عورتوں کے پردے کا رواج نہیں‘ اور خواتین آپ کو چولستانی لباس‘ جو تیز اور شوخ رنگوں کی چولی اور گھگھرے اور سر پر چُنی کی صورت آج بھی مقبول ہے‘ میں دکھائی دیں گی۔ قدیمی آبادیاں اکثر بے زمین ہیں۔ ظلم کی بات ہے کہ ریاست کی زمین پہلے مشرقی پنجاب کی زراعت پیشہ قوموں میں تقسیم ہوئی تو مقامی آبادیوں کو ان کے گلہ بانی اور مال مویشی پالنے کے پیشوں کے سہارے چھوڑ دیا گیا۔ البتہ قوموں کے سربراہوں‘ سیدوں اور ریاست کے نوابی ڈھانچے سے منسلک اشرافیہ کو لاکھوں ایکڑ عنایت کیے گئے۔ آج کے سارے بڑے سیاسی خاندان اُس اشرافیہ کا حصہ تھے۔ جب ریاست کو ون یونٹ میں مغربی پاکستان اور اس کے ٹوٹنے کے بعد پنجاب میں ضم کیا گیا تو پنجاب کی نوکر شاہی اور سیاسی خاندانوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ اپنے محدود مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ خوش حال اور درمیانے درجے کی زمیندار کلاس قدیمی باشندوں کی نہیں۔ سابقہ ریاست کے شہروں‘ قصبوں اور منڈیوں کی معیشت بھی آباد کاروں کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح تعلیم اور سرکاری نوکریاں بھی۔ ریاستی لوگ جو اپنی اس شناخت کو دل وجان سے عزیز رکھتے ہیں‘ کے پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ پرانا جاگیرداری نظام ہے جس کے شکنجے سے وہ ابھی تک نہیں نکل سکے۔ آباد کار ان کے مقابلے میں ترقی پسند‘ متحرک اور سماجی ترقی کے میدان میں بہت آگے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے اس سفر کی منزل پچپن سال پہلے کے ایک بچھڑے دوست کو چولستان کے کنارے‘ ٹیلوں کے درمیان تلاش کرنا تھا۔ اگلی تحریروں میں اس شخصیت کے بارے میں لکھوں گا۔ چھوٹے چھوٹے دیہات کے درمیان سے گزر ہوا تو فرق واضح نظر آیا کہ قدیمی بستیاں ابھی تک قدیمی ہی ہیں۔ کچی مٹی کے محدود کمروں کے گھر‘ دیواروں کے بجائے سوکھی لکڑیوں کی باڑیں اور جانوروں کی نگہداشت میں عورتیں اور بچے مصروف دیکھے۔ آباد کاروں کی بستیوں کے قریب پکی سڑکیں‘ بجلی اور سرسبز کھیت تھے۔ یعنی واضح فرق دکھائی دیتا تھا۔ مقامی چولستانیوں کی بود وباش دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کا زرعی انقلاب کسی اور سرزمین پر واقع ہوا ہے۔ اپنے میزبانوں سے پوچھا کہ آپ کو زمین الاٹ ہوئی یا آپ خرید کر سکے تو جواب تو معلوم تھا‘ مگر تصدیق نفی کی صورت ہو گئی۔ اس تفریق اور تاریخی محرومیوں کے باوجود خوشی کی بات یہ ہے کہ سب آبادیوں میں ہم آہنگی‘ بھائی چارے اور باہمی اعانت کی فضا موجود ہے۔ تازہ مکھن کی پلیٹیں اور دودھ کی بالٹیاں اردگرد کی بستیوں سے آئیں کہ ہمارے میزبانوں کے مہمان آ رہے تھے۔ اب کیا بتائوں‘ چولستان کے کنارے چارپائی پر بیٹھ کر سرسوں کے ساگ‘ تازہ مکھن اور شکر کو ملا کر کھانے میں کیا لطف تھا۔ دیسی مرغی کے سالن کو ہم نے ہاتھ بھی نہ لگایا۔ کاش وقت زیادہ ہوتا‘ اور صحرا کے صبح وشام کے مناظر اور تاروں بھرے آسمان کو رات کے اندھیرے میں روشن موتیوں کی صورت دیکھ سکتے۔